بے شرمی کے مینار……

Shafiq Awan, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

بظاہر تو لگتا ہے مینار پاکستان پر ایک خاتون کے ساتھ بے شرمی سے 4 گھنٹے مسلسل ہونے والے  ہراسانی کے واقع نے ہمیں جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے۔میڈیا دیکھ کر لگتا تھا اس سے بڑا واقع ہی کوئی نہیں۔ سوشل میڈیا پر الگ طوفان بدتمیزی تھا لڑکی کے حق کے علاوہ اس کو ملزم ثابت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی۔ یہی کچھ مین سٹریم میڈیا میں بھی ہو رہا تھا۔ لگتا تھا نیوز چینل پر تبصرہ نگاروں کی گز گز بھر لمبی زبانیں ٹی وی سکرین توڑ کر باہر آ جائیں گی۔ اس خاتون کو ٹک ٹاکرکہنا بھی مناسب نہیں وہ اس ملک کی شہری تھی اور اسے بھی وہ تمام حقوق حاصل تھے جو کہ اس معاشرے کے ہر مرد کو حاصل ہیں۔ یہ کہنا کہ وہ مینار پاکستان گئی ہی کیوں تھی ہمارے بیمار ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ بلکہ ہماری ذہنی گراوٹ کو دیکھیں کہ کچھ لوگ اس واقع کو طے شدہ منصوبہ قرار دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ محض ایک ویڈیو کی خاطر کون اپنی جان کو خطرے میں ڈالے گا۔ اس خاتون کا پورا جسم زخموں سے چھلنی تھا وہ برہنہ حالت میں پولیس کو ملی لیکن پھر بھی معاشرے کا بڑا طبقہ اسے مظلوم ماننے کو تیار نہیں۔ عورت کے معاملے میں سب سے آسان کام یہ ہے کہ جب دلیل سے اسے شکست نہ دے سکو تو اسے بدچلن قرار دے دیں۔ اور یہی کچھ اس خاتون کے ساتھ ہوا۔ایسی تاویلیں جو ظلم اس خاتون کے ساتھ ہوا کو کم کرنے کی کوششیں ہیں جو کہ ہماری ذہنی پستی کی واضح مثال ہے۔اوریہ رویہ ایسے واقعات کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ مینار پاکستان اور سیف سٹی کیمرہ کے نیٹ ورک پر 4 گھنٹے تک جاری رہنے والے اس واقع کا مشاہدہ کرنے والوں نے فوری ایکشن کیوں نہ لیا؟ جس طرح سیالکوٹ موٹروے زیادتی کیس میں پولیس کو مطلع کرنے کے باوجود بھی حدود کے تنازع پر کوئی اس کی مدد کو نہ آیا بلکہ ایک بدبخت پولیس افسر نے کہا کہ وہ بچوں کے ساتھ اکیلی نکلی ہی کیوں؟ 
مینار پاکستان کے اس واقع کے بعد ہی اسی علاقے میں اسی 14 اگست کو کچھ اور واقعات بھی رپورٹ ہوئے جس میں ایک خاتون اپنے بچے کے ساتھ یوم آزادی منانے آئی تھی کو اسی مینار پاکستان کے سبزہ زار میں ہراساں کیا گیا لیکن اس نے بہادری سے مقابلہ کر کے انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ میرا سوال ہے کہ یہ خاتون تو ٹک ٹاکر  نہ تھی اپنے بچوں کے ساتھ یوم آزادی منانے آئی تھی کیا اس کا مینار پاکستان آنا ہی گناہ تھا؟
پھر ایک چنگ چی میں بیٹھی خواتین کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بھی شرمناک ہے۔ کیا ان خواتین کا یہ قصور تھا کہ وہ رکشے میں سفر کیوں کر رہی تھیں؟ وہ جو مینار پاکستان میں ہونے والے شرمناک واقعے کی تاویلیں پیش کر رہے ہیں اس واقعہ پر کیا کہیں گے۔ 
سب سے بڑھ کر قبر سے لڑکی کی لاش نکال کر اس کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ اس پر وہ لوگ اور علما جو مینار پاکستان کے واقع پر اس لڑکی کو مورد الزام ٹھرا رہے ہیں یہاں کیوں خاموش ہیں۔
اسلام آباد میں ایک دولتمند نے ایک لڑکی کو ہوس کا نشانہ بنا کر اس کا سر قلم کر دیا۔ لیکن ہم سوال اس لڑکی پر اٹھا رہے ہیں۔ ہم بجائے جرم کے خلاف آواز اٹھانے کے اس کے دیگر پہلوؤں کو اجاگر کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں تا کہ توجہ اس طرف مبذول کر  کے جرم کی نوعیت کو کم دکھایا جا سکے اور اس کام میں ہماری مذہبی اشرافیہ پیش پیش ہے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ بھی کم نہیں اپوزیش والے ایسے تمام واقعات کا ملبہ حکومت  وقت پر ڈال کر اسے حکمرانوں کی ناکامی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور حکومت بھی بعد از مرگ ماتم تک محدود رہتی ہے چند پولس افسر معطل یا ٹرانسفر اور فرض پورا ہو گیا۔ ساہیوال کے ایک خاندان کا سی ٹی ڈی اہلکاروں کے ہاتھوں ان کے بچوں کے سامنے قتل عام کا واقعہ بھی قاتل پولیس افسران کی معطلی کے بعد اندراج مقدمہ تک پہنچا۔ لیکن ہمارے عدالتی نظام نے ان سب قاتل پولیس والوں کو اس قتل عام سے بری قرار دے دیا۔  
شاہی قلعے میں نصب رنجیت سنگھ کے مجسمے کی توڑ پھوڑ سے پوری دنیا میں جو جگ ہنسائی ہوئی اس کے ملزم کو محض 50 ہزار کے مچلکوں پر رہا کر دیا گیا۔ کچھ وکلا ء سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ پولیس نے کیس ہی کمزور بنایا تھا۔ مجسمہ  شاید پھر بن جائے لیکن اس ایک واقع سے پوری دنیا میں ہماری جو جگ ہنسائی ہوئی اس کا مداوا کون کرے گا۔ کچھ علماء کی جانب سے اس کی تاویل یہ پیش کی جا رہی ہے کہ اسلام میں مجسمہ سازی حرام ہے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام نے اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کی ضمانت دی ہے۔ وہ مجسمہ ایک غیر مسلم کا تھا۔ اسی مائنڈ سیٹ کے ماننے والوں نے  پھر بھونگ میں مندر میں مورتیوں کی توڑ پھوڑ کی اور اسے نذر آتش کر دیا گیا۔ لیکن ہمارے علما ء نے اس کی مذمت تو ایک طرف اور نبی کریمؐ کی اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے ارشادات کا ذکر تک نہ کیا۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارا معاشرہ جلد ہی ایسے واقعات کوبھول جاتا ہے تاوقتیکہ کوئی نیا واقعہ ہمیں جھنجھوڑ نہ دے۔  ہم پچھلے واقعات سے سبق سیکھنے اور ان کی روک تھام کے لیے کچھ اقدامات کی بجاے لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ میڈیا بھی چند دن اس واقعے کو اچھالے گا اور پھر نئے کی کھوج میں لگ جائے گا۔ ہماری پارلیمنٹ، ہمارے ریاستی ادارے، عدلیہ، پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے، ہمارے مذہبی رہنما، اساتذہ، میڈیا، سیاستدان اور حکمران جب تک ایسے واقعات پر مٹی پاؤ، ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں کی بجائے ان کو روکنے کے لیے سنجیدگی نہیں دکھائیں گے ایسے واقعات ہوتے رہیں گے میڈیا جلد اس واقعہ کو بھول کر نئے کے پیچھے لگ جائیں گے یہی ہمارا قومی المیہ ہے۔ ہم جرم کو اس کی نوعیت نہیں بلکہ ذاتی پسند ناپسند کے ترازو میں تولتے ہیں۔ جب تک یہ رویہ رہے گا خاکم بدہن ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ اللہ تبارک و تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین
قارئین اپنی رائے کے اظہار کے لیے اس نمبر 03004741474 پر وٹس ایپ، سگنل، بی آئی پی یا ٹیلیگرام کر سکتے ہیں۔