افغانستان، پاکستان اور امریکہ

Atta ur Rehman, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

آج اتوار 22 اگست کو کابل میں طالبان کا ”انقلاب“ ظہور پائے 7 دن گزر چکے ہیں …… طالبان ملکِ افغاناں کی سب سے طاقتور داخلی قوت کے طور پر اور 20 سال کی لمبی مسلح جدوجہد کے بعد غالب آ گئے ہیں، مگر حکومت کا نظام ابھی تک ان کی دسترس میں نہیں آیا…… اس کا ڈھانچہ یا آئین بھی ابھی تک تیار نہیں ہوا اگرچہ ان کے ترجمان کی جانب سے کہا گیا خالصتاً اسلامی حکومت قائم ہو گی اور شرعی قوانین کا نفاذ کیا جائے گا…… فی الواقع لمحہ موجود کے اندر ملکِ افغاناں میں کوئی حکومت نہیں، کسی کے ہاتھوں میں اقتدار کی کنجیاں نہیں، اس کے باوجود طالبان کے سامنے کوئی کھڑا نظر بھی نہیں آ رہا…… انتقالِ اقتدار کو پُرامن طریقے سے ممکن اور مؤثر بنانے کے لئے باہمی مذاکرات کا عمل جاری ہے…… اشرف غنی کی جو حکومت ان کی یلغار کے سامنے ایک دن ٹھہر نہ سکی اور اس کے بظاہر طاقتور اور امریکی فوجی قوت کی سرپرستی میں کام کرنے والے سابق صدر اشرف غنی کو ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی…… مجرموں کی طرح یا یوں کہئے کہ شاہ ایران اور فلپائن کے سابق صدر مارکوس کی مثال کی پیروی کرتا ہوا بھگوڑا بن کر فرار ہو گیا ہے…… امریکہ نے طوطا چشمی کا مظاہرہ کیا ہے…… پیچھے جو خلا وجود میں آیا ہے جیسا کہ ہر کوئی توقع کر رہا ہے…… اسے طالبان کی قیادت پُر کرے گی مگر آثار یہ بتاتے ہیں کہ واحد سپرطاقت کے لئے اتنی بڑی حقیقت کو ہضم کرنا آسان ثابت نہیں ہو رہا…… لہٰذا شرائط منوائی جا رہی ہیں …… پاکستان کو طالبان کا سب سے بڑا دوست سمجھا جاتا ہے اور اس کا بھی امریکہ بہادر کو دکھ ہے جو چھپائے نہیں چھپتا…… پاکستان کی عسکری اور سول قیادت کے لئے کڑے امتحان کا مرحلہ ہے…… سب سے زیادہ پریشانی بھارت کو لاحق ہے جس کے لئے پائے ماندن نا جائے رفتن والی صورت حال پیدا ہو گئی ہے…… بڑے ہمسایہ ممالک میں سے چین اور روس دو ایسی طاقتیں ہیں جنہیں قدرے اطمینان حاصل ہے کہ طالبان ان کے ساتھ معاندت کا رویہ نہیں رکھیں گے…… ایک کھچڑی سی ہے جو کابل میں پک رہی ہے…… قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے…… طالبان نے واضح الفاظ میں عندیہ دیا ہے وہ کسی سے انتقام نہیں لیں گے اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے…… ان کا طرزِ حکومت لازماً اسلامی ہو گا…… شرعی قوانین ہی رائج کئے جائیں گے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خواتین کے حقوق سلب کر کے رکھ دیئے جائیں جس کی اسلام بھی اجازت نہیں دیتا…… اور پردے کا لازماً مطلب عورتوں کے لئے شٹل کاک برقعے کا پہننا نہیں جو کہ پختون روایت کا حصہ ہے…… خواتین حجاب بھی اوڑھ سکتی ہیں …… تاہم جیسا کہ سب جانتے ہیں افغانستان کا سب سے بڑا سیاسی مسئلہ خاص طور پر یہ کہ جب طالبان کی حکومت قائم ہو رہی ہو تو پختونوں کے علاوہ تاجک، ازبکوں، ہزارہ برادری (شیعہ) اور دیگر نسلی نمائندوں کو بھی شریک اقتدار کرنا ہے …… طالبان کی پچھلی حکومت (1996-2001) کے دوران یہی مسئلہ ان کے اقتدار کے پائیدار ہونے کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوا لیکن اب طالبان کی جانب سے الاعلان کہا گیا ہے کہ وہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے…… اقتدار میں ان کا جائز حصہ دیں گے…… یوں پوری افغان آبادی کی نمائندہ حکومت قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی…… اگر ایسا فی الواقعہ ہو جاتا ہے اور مختلف نسلی قبائل کے دلوں کی رنجشیں دور ہو جاتی ہیں ……بڑے بڑے افغان قبائل اور ان کے رہنما آپس میں مل کر مؤثر قومی انتظامیہ کو وجود میں لے آتے ہیں تو یہ بلاشبہ عہدساز کارنامہ ہو گا…… ہم سب کو اس حقیقت کا بھی ادراک کر لینا چاہئے کہ پشتون جہاں کل افغان آبادی کا تقریباً 47 فیصد ہیں یعنی قطعی اکثریت نہیں رکھتے وہیں دری (کلاسک فارسی) بولنے والے تاجک 33 فیصد کے لگ بھگ ہیں اور ازبک بھی 15 فیصد کے قریب ہیں …… یہاں یہ امر توجہ کے قابل ہے کہ افغانستان کے پشتون، تاجک آبادی اور ازبک نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ سب کے سب مسلمان اور اسلام کے شیدائی ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ حنفی کے پیروکار ہیں …… یعنی ان کے درمیان کسی قسم کا مذہبی تفرقہ یا فقہی اختلاف نہیں پایا جاتا…… مجھے افغان جہاد اور طالبان کی پہلی حکومت کے دوران 5، 6 مرتبہ 
افغانستان کا مشاہداتی سفر کرنے کا موقع ملا ہے…… مسئلہ افغانستان کو اس کے پورے تناظر میں سمجھنے کے لئے دریائے آمو کے اس پار ازبکستان اور تاجکستان بھی گیا ہوں …… وہاں پختونوں کی جہادی تنظیموں کی قیادتوں کے علاوہ تاجک گوریلا لیڈروں اور علماء سے بھی ملا ہوں …… 1996 میں قندھار میں ملا عمر سے بھی ملاقات کی…… سوویت یونین کے خلاف جہاد میں تاجک اور ازبک مجاہدین پشتونوں کی گوریلا تنظیموں میں سے کسی سے پیچھے نہیں تھے…… ان کی وادی پنج شیر اور گردوپیش کے علاقوں میں ان کی فتوحات کے قصے عام تھے اور کمال کی بات یہ ہے کہ تاجک علماء جتنی فصاحت اور روانی کے ساتھ عربی بولتے ہیں وہ پشتونوں کے حصے میں نہیں آئی کیونکہ تاجکوں نے دین کی زیادہ تر تعلیم عرب ممالک میں جا کر حاصل کی ہے جبکہ پشتونوں کے مذہبی علم کی اٹھان پاکستان کے دینی مدارس میں ہوئی…… یہ تفصیلات رقم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تاجک اور ازبک دین حق اسلام اور فقہ حنفی کے ساتھ اپنی عملی وابستگی کے لحاظ سے پشتونوں سے کسی طور پیچھے نہیں اس لئے اگر نسلی تفاوت کو جیسا کہ اسلامی تعلیمات شدت کے ساتھ تقاضا کرتی ہیں …… پاؤں تلے روندھ ڈالا جائے تو افغانستان کے معاشرے کے اندر آپس کی ہم آہنگی اور باہمی تعاون کی فضا پروان چڑھانے میں خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے…… یہی وقت کا بہت بڑا تقاضا ہے……
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ہم نے گزشتہ 40 برسوں میں افغانستان کے اندر داخلی امن قائم کرنے اور اس ہمسایہ ملک کو جس کے ساتھ ہماری اڑھائی ہزار کلومیٹر سے لمبی سرحد ملتی ہے…… گہرے نسلی، مذہبی اور تجارتی تعلقات ہیں جو صدیوں سے چلے آ رہے ہیں …… سامراجی اثرات اور بیرونی طاقتوں کے غلبے سے آزاد رکھنے کی خاطر اَن گنت قربانیاں دی ہیں …… اپنے وسائل اس مقصد کی خاطر جھونک دیئے ہیں …… 30 لاکھ مہاجرین کو پناہ دیئے رکھی ہے جو اب تک ہماری معیشت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں …… لہٰذا یہاں اس نقطے کو اجاگر کرنے کی چنداں حاجت نہیں کہ پاکستان کے اس ملک کے ساتھ Stakes سب سے زیادہ جڑے ہوئے ہیں کئی معاملات میں ہمارے اور افغانوں کے معاملات ایک ہیں …… اگرچہ افغان اپنا قومی تشخص اور آزاد ملک کی حیثیت سے وقار برقرار رکھنے کے لئے بڑے حساس واقع ہوئے ہیں جس کا انہیں حق بھی حاصل ہے…… پاکستان کے لئے افغانستان جڑواں بھائی کا درجہ تو رکھتا ہے لیکن افغان قومیت اور اس آزاد منش قوم کی خودمختاری یا حاکمیتِ اعلیٰ کا پاس و لحاظ رکھنا بھی ہماری اولین ذمہ داریوں میں سے ہے…… اب جو برملا کہا جا رہا ہے کہ افغانستان میں پاکستان دوست حکومت آیا چاہتی ہے ایسی حکومت جسے اپنی بات منوانے کا ڈھنگ آتا ہے…… ہمارے حکمران طبقے اور پالیسی سازوں کو معاملات طے کرتے وقت ان نزاکتوں کا پوری طرح احساس و ادراک کرنا چاہئے…… ہمیں آپس میں بھائی چارے کی فضا ضرور قائم کرنی ہے لیکن اہل پاکستان اور افغانی ہر لحاظ سے علیحدہ علیحدہ قومیں ہیں …… ہمیں اپنے اپنے معاملات طے کرتے وقت شدت کے ساتھ ایک دوسرے کی قومی شناخت کا پوری طرح لحاظ کرنا ہوتا ہے…… یہ امر جتنا افغانستان کے لئے ضروری ہے اتنا ہی پاکستان کے لئے…… پاکستان کے لئے یہ کیا کم ہے کہ طالبان کی اسلامی حکومت اگر ارض وطن پر اپنا تسلط پوری طرح جما لیتی ہے تو ہمارا Backyard کہیں زیادہ محفوظ ہو جائے گا…… وہ Backyard جو ظاہر شاہ کے دور سے لے کر اب تک ہمارے خلاف بھارت کی سٹرٹیجک پالیسیوں اور سازشوں کی آماجگاہ بنا رہا ہے…… اسی طرح بھارت نے افغانستان کے ذریعے بلوچستان کے اندر علیحدگی پسندی کو ہوا دینے کے لئے جو کمین گاہیں بنا رکھی ہیں انہیں غیرمؤثر بنانا بھی ہمارے لئے نسبتاً بہت آسان ہو گیا ہے ملکِ افغاناں کے اندر تازہ ترین پیش رفت نے بھارتی پالیسی سازوں کی ذہنی چولیں اس لئے بھی ہلا کر رکھ دی ہیں کہ انہوں نے 5 اگست 2019 سے مقبوضہ جموں و کشمیر متنازع ریاست کو بطورِ طاقت اپنے اندر ہڑپ کر لینے کی جو سعی نامشکور کی ہے افغانستان میں طالبان کی حکومت کی وجہ سے خطے کا سٹرٹیجک تناظر جو تبدیل ہوا اس کی بنا پر مقبوضہ کشمیر پر بھارت کی گرفت کمزور پڑ سکتی ہے بشرطیکہ پاکستان کے سٹرٹیجک حکمت کار اور پالیسیاں نافذ کرنے والے لوگ بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر بھارتیوں کے عزائم کمزور کرنے کے لئے اپنی پالیسی کو نئی جہد دیں گے…… یہ کہنا آسان ہے لیکن اس کو ممکن بنانے کی خاطر ہمیں پہلے سے زیادہ بصیرت، حکمت کاری اور دوراندیشی سے کام لینا ہو گا…… اب وقت آ گیا ہے کہ ہماری بہادر فوج کی کمانڈ اپنی تمام تر توجہات ملک کی دفاعی تقاضوں کو بروئے کار لانے پر صرف کر دے اور سیاست کا کام خالصتاً عوام کے منتخب نمائندوں کے سپرد کر دیا جائے تاکہ ضروری دفاعی اہداف پورے کرنے کے لئے پوری یکسوئی سے کام کریں ……
امریکہ کے بارے میں معلوم ہونا چاہئے وہ 20 سالہ جنگ میں بری طرح شکست سے دوچار ہونے کے باوجود افغانستان کے اندر اپنے مفادات کو ہر لحاظ سے تحفظ دینے کی بھرپور کوشش کرے گا…… اس نے خطے پر اثرورسوخ کے ذریعے چین کا مقاطعہ کرنا ہے،بھارتی مفادات کو طالبان کی آمد سے جو دھچکا پہنچا ہے اس کی تلافی میں مددگار بننا ہے…… ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود طالبان کے ہاتھوں میں اپنے ملک کے اقتدار کی طنابیں مکمل طور پر اس لئے نہیں آئیں کہ امریکی نئی طالبان انتظامیہ میں اپنے اور سابق افغان حکومت سے تعلق رکھنے والے وفاداروں کو جگہ دلوائے گا اور حکومت میں ان کی حصہ داری کو یقینی بنوائے گا…… پرانے دور کے کچھ تاجک اور ازبک لیڈر اور پشتونوں میں سے ظاہر شاہ کے عہد سے لے کر اشرف غنی انتظامیہ تک کے کچھ افراد کو اہم عہدے دلوانے کے لئے بھرپور کوشش کی جا رہی ہے اور اسی کو Inclusive Government کا نام دیا جا رہا ہے…… طالبان کو Inclusive یا وسیع البنیاد حکومت ہر صورت میں وجود میں لانی چاہئے کیونکہ اسی میں ان کے اقتدار کے پائیدار ہونے کا راز مضمر ہے لیکن آخری چناؤ کے وقت اس امر کا خیال ازحد لازم ہو گا کہ کلیدی عہدوں پر ایسے عناصر نہ در آئیں جو امریکہ اور بھارت کے مفادات کی پرورش کرنے کی خاطر اندرونی طور پر ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا جال بچھانا شروع کر دیں …… اسی میں طالبان کی نئی حکومت کے لئے آزمائش پائی جاتی ہے دیکھئے وہ کہاں تک پورا اترتے ہیں ……