افغانستان بارے اجیت ڈوول کی بھونڈی حکمت عملی نے بھارت کو رسوا کر دیا

افغانستان بارے اجیت ڈوول کی بھونڈی حکمت عملی نے بھارت کو رسوا کر دیا
کیپشن: افغانستان بارے اجیت ڈوول کی بھونڈی حکمت عملی نے بھارت کو رسوا کر دیا
سورس: فائل فوٹو

نئی دہلی:  بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کی افغانستان کے حوالے سے بھونڈی حکمت عملی بھارت کی رسوائی کی وجہ بنیں۔ انڈین مشیر کے افغان نیشنل آرمی کے حوالے سے دعوے سمندری جھاگ نکلے۔

بھارتی مشیر قومی سلامتی کے افغانستان کے حوالے سے بھونڈے تجزیے،غلط مشوروں اور دعووں سے بھارت تو ڈوبا ہی مگر امریکہ اور مغرب بھی چکر میں آ کر رسوائے زمانہ ہوئے۔ 2013ء میں بھارتی مشیر برائے قومی سلامتی اجیت ڈوول نے ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے افغان نیشنل آرمی کی صلاحتیوں کی تعریف کے پل باندھے اور پاکستان کے موقف کو غلط قرار دیا تھا۔

ہندوستان نے مسلسل عالمی طاقتوں سے ناصرف جھوٹ بولا بلکہ انہیں مس گائیڈ کیا جبکہ وقت ہے کہ مغرب اور افغان اب انڈیا سے جواب طلب کریں۔

ادھر افغانستان میں بھارتی سفیر کے طور پر ذمے داریاں نبھانے والے راکیش سود کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان کے آنے پر نقصان بھارت کا ہی ہے اور اس کے دو پہلو ہیں، پہلا یہ کہ خطے میں پاکستان کا اثر و رسوخ بڑھے گا، پاکستان کے ساتھ موجودہ تعلقات کے باعث یہ ہمارے لئے بدشگون ہو گا، دوسرا یہ کہ افغانستان اگر عدم استحکام رہے گا تو ہندوستان کے لحاط سے علاقائی سیکیورٹی کے لئے یہ بُرا ہی ثابت ہوگا۔

راکیش سود کا کہنا تھا کہ اسے ٹالا نہیں جا سکتاکیونکہ امریکا نے اسے قبول کرلیا تھا، خود امریکا نے افغانستان کو پاکستان اور آئی ایس آئی کے حوالے کیا، سابق بھارتی سفیر نے دعویٰ کیا کہ گذشتہ سال ہی طے ہوگیا تھا کہ اسلامک ری پبلک کے گنتی کے دن بچے ہیں۔ بحیثت سربراہ اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل بھارت افغانیوں کے لئے کیا کرسکتا ہے؟، راکیش سود نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کچھ نہیں کر سکتا، اگر ہندوستان نے سارے داؤ ایک ہی متبادل پر نہیں لگائے ہوتے تو وہ کچھ کرنے کی حالت میں ہوتا مگر اب حالات یہ ہیں کہ ہندوستان کو اپنے سفارت خانہ کے لوگوں سمیت مختلف کمپنیوں کے لیے وہاں کام کرنے والے افراد کو محفوظ طور پر نکالنے کے لئے پسینے بہانے پڑ رہے ہیں۔

بھارت نے قدم اٹھانے میں تاخیر کیوں کی؟، جس کا جواب دیتے ہوئے راکیش سود کا کہنا تھا کہ گزشتہ کچھ سالوں سے یہ بات صاف تھی کہ طالبان اقتدار میں آئے گا، کم از کم دوحہ میں جاری بات چیت کے بعد تو یہ ظاہر ہو ہی گیا تھا، مگر بھارتی حکومت نے اسے نظرانداز کیا،سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت نے اسے نظرانداز کیوں کیا۔

کیا ہندوستان کو طالبان جیسے سخت گیر ادارے سے بات چیت کرنی چاہیے؟، جس کے جواب میں سابق سفیر کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ کے بیان پر غور کریں، اس نے کہا کہ ہم سبھی فریقین سے بات کر رہے ہیں۔ ہم نے ان میٹنگوں میں حصہ لیا ہے جن میں طالبان بھی تھے۔ اس لیے سوال کسی ’سخت گیر‘ سے بات کرنے کا نہیں، افغانستان میں ہمارے کچھ مفادات ہیں اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ وہاں موجود ہندوستانیوں اور ہمارے سفارتخانہ میں کام کرنے والوں کی سیکورٹی یقینی بنائے۔