مریم نواز اور LOUIS VUITTON۔۔۔

مریم نواز اور LOUIS VUITTON۔۔۔

ہماری سیاست میں حکمرانوں کی لوٹ مار، کمیشن، اقربا پروری، کرپشن جیسے الفاظ عام ہیں لیکن اس ریس میں ایک نئے لفظ ”توشہ خانہ“ کا اضافہ ہوا ہے۔ توشہ خانہ فارسی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے بادشاہوں یا امیرزادوں کے قیمتی زیور اور ملبوسات رکھنے کی جگہ۔ فی زمانہ توشہ خانہ سے مراد ہمارے حکمرانوں کو غیر ممالک سے ملنے والے قیمتی تحائف رکھنے کی جگہ ہے۔
سب سے پہلے مسلم لیگ ن کے نواز شریف نے اس وقت کے وزیر اعظم اور موجودہ اتحادی یوسف رضا گیلانی کے خلاف توشہ خانہ سے ترکی کا دیا ہوا ایک قیمتی ہار چوری کرنے کا الزام لگایا۔ بے چارے یوسف رضا گیلانی کو چور کا خطاب بھی دے دیا گیا اور اس مہم نے اتنا زور پکڑا کہ گیلانی صاحب کو بیگم کے گلے سے وہ ہار اتار کر واپس کرنا پڑا۔ لیکن اب چونکہ وہ اتحادی ہیں اس لیے وطن عزیز میں رائج رواج کے تحت پچھلے سارے گناہ معاف سمجھے جاتے ہیں۔
آج کل وطن عزیز میں توشہ خانہ کے سیکنڈل بہت مقبول ہو رہے ہیں، فی الحال تو نشانہ عمران خان ہیں۔ لیکن گاہے گاہے توشہ خانہ سے مستفید ہونے پر نواز شریف، آصف علی زرداری، مشرف اور دیگر وزرائے اعظم، صدور اور گورنر صاحبان کے نام بھی نقار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح گونجتے ہیں۔ کیونکہ اس وقت نقار خانے میں ہر آواز عمران خان بارے اٹھتی ہے اس لیے باقی آوازیں فی الحال مدھم ہیں۔ لیکن 14 رکنی حکومتی اتحاد کی بذریعہ الیکشن کمیشن پوری کوشش ہے کہ عمران خان کو توشہ خانہ مقدمے کے تحت نااہل کرا سکے۔
یہ تو حکومتی توشہ خانہ کی بات ہے لیکن ایک ٹی وی اینکر منصور علی خان کے وی لاگ سے پتہ چلا کہ سیاسی طور پر بااثر افراد بھی اپنی غیر سرکاری حیثیت کا استعمال کر تے ہوئے قیمتی تحائف کا توشہ خانہ بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ مریم نواز کو بھی ایک قیمتی بیگ کا تحفہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے دو بڑوں نے دیا ہے۔ منصور نے یہ سب تفصیل سوشل میڈیا پر مسلم لیگ نواز کے میڈیا سیل کی طرف سے جاری کردہ ایک تصویر جس میں تحفہ دینے والے مودب مریم نواز کے سامنے مودبانہ کھڑے ہیں۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ گاڑیاں بنانے والی ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کے کرتا دھرتا مریم نواز شریف کے سامنے ایک لیڈیز پینڈ بیگ بنانے والی ایک بڑی بین الاقوامی Louis vuitton کمپنی کا گفٹ پیک پکڑے کھڑے ہیں۔ منصور کی عقابی نظروں سے پوری تصویر میں یہ چھوٹا سا بیگ اور اس پر بنا کمپنی کا مونوگرام نہ چھپ سکا۔ اس کمپنی کے بیگز کی قیمت ہم صرف پڑھ سکتے ہیں یا سن سکتے ہیں بلکہ جب اسے پاکستانی کرنسی میں ضرب دیں گے تو ہم جیسے اس کی گنتی بھی بھول جائیں گے۔ لیکن موجودہ وقت کے منصور نے اس گفٹ پیک کے اندر کیا تحفہ تھا یہ نہیں بتایا۔
خیر دل میں بغیر بدگمانی لائے کہ اس تحفے کے بدلے کیا کیا رعایتیں اس ملٹی نیشنل کمپنی کو ملی ہوں گی میں نے مسلم لیگ ن سے اپنی 35 سالہ رفاقت کے ذریعے کچھ مسلم لیگیوں سے اس حوالے سے رابطہ کیا۔ لیکن مجھے مکمل سکوت ہی ملا۔ کچھ سیانوں نے کہا کہ Louis vuitton کی نقل یا Replica ہو گا۔ جب شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوں تو وفاداری کرتے ہوئے جس حد تک جا سکتے ہیں آپ اس کا اندازہ اس جواب سے لگا سکتے ہیں۔ اس کے بعد میں نے مسلم لیگ ن میں مریم نواز کے متحارب سمجھے جانے والے شہباز شریف گروپ سے بھی کھوج لگانے کی کوشش کی لیکن مکمل خاموشی ملی (ویسے متحارب گروپ کی کہانی ہی ہے اصل میں سب ایک ہیں)۔ میں دل میں بدگمانی اس لیے نہیں لایا کہ مریم نواز کو اللہ پاک نے اتنا نوازا ہے کہ وہ بیگ بنانے والی (Louis vuitton) کمپنی کو بھی خرید سکتی ہیں۔ صحافتی تجسس کے باعث مجھے اب یہ جاننے کی کھوج لگ گئی کہ اس گفٹ بیگ میں کون سا بیگ ہو گا۔
14 رکنی اتحادی حکومت کے لوگوں خصوصاً پیپلز پارٹی میں ان سے بھی جو اس طرح کے مہنگے بیگ استعمال کرتی ہیں سے بھی رابطہ کیا لیکن ان کا جواب تھا کہ پتہ چلے تو ہمیں بھی بتانا۔اس کے بعد مجبوراً اپوزیشن سے پوچھا تو کچھ نے تو نظر انداز کر دیا اور مجھے بدگمانی ہوئی کہ یقیناً وہ بھی اسی طرح کے قیمتی بیگ استعمال کرتی ہوں گی۔ اس ملٹی نیشنل کمپنی سے بھی رابطہ کیا کہ کون سا بیگ ہو سکتا ہے لیکن ٹکا سا جواب بھی نہ ملا البتہ اپوزیشن کے چند دوستوں نے بتایا کہ اس گفٹ پیک میں جو بیگ تھا اس کا نام Kusama Pumpkin تھا اور بغیر ٹیکسز کے اس کی قیمت 133000 (ایک لاکھ تینتیس ہزار) ڈالر سے زائد ہے۔ وہ مُصر تھے کہ بیگ یہی تھا گو کہ ان کے پاس اس دعویٰ کی تصدیق کے لیے کوئی مواد نہ تھا۔ میں نے بھی اسے دعویٰ ہی سمجھا۔ جبکہ کچھ کا خیال تھا کہ اس گفٹ پیک میں The Urban Satchel نامی بیگ تھا جس کی قیمت بغیر ٹیکسز کے 150000 امریکی ڈالر ہے۔
اب میری مسلم لیگ کے اکابرین سے اپیل ہے کہ بتایا جائے کہ اس گفٹ پیک میں کونسا بیگ تھا اور اس کی قیمت کیا ہے تاکہ سوشل میڈیا پر جاری ان افواہوں کا خاتمہ ہو سکے اور سچ سامنے آئے۔ بیگ جو بھی ہے، اللہ پاک مریم نواز کو استعمال کرنا نصیب کرے۔ آمین۔
میں نے احتیاطاً ایئر پورٹ کسٹم سے رابطہ کیا شاید انہوں نے اس قسم کے بیگز کی آمد یا امپورٹ پر کوئی ٹیکس لگایا ہو لیکن صاف انکار سامنے آیا۔ ایف بی آر سے رابطہ کیا کہ شاید ان کے علم میں ہو تو انہوں نے بھی نفی میں سر ہلایا۔ البتہ ایک بھلے مانس نے مجھے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاتے ہوئے کہا کہ انتظار کریں اس وقت تک جب تک وہ اس بیگ کو اپنے انکم ٹیکس ریٹرن میں ظاہر نہ کریں۔ سپریم کورٹ کا سوموٹو کے نوٹس کا خیال بھی دل سے نکال دیا کیونکہ جب تک بات وہاں تک پہنچتی اس بیگ میں شاہ عالمی مارکیٹ کی سوویں نقل شدہ کاپی نکل آتی۔ آخر پہلے بھی تو شراب کی بوتل سے شہد نکل آیا تھا۔
اس سے زیادہ نہ کریدا کیونکہ میں مریم نواز شریف کے چچا اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف جب وہ وزیر اعلیٰ پنجاب تھے کے ہاتھوں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت طویل مقدمات بھگت چکا ہوں۔ اب اس عمر میں ایسا کوئی روگ پالنے کی ہمت نہیں اور عزیز از جان سینئر صحافی شاداب ریاض نے بھی یہی مشورہ دیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کے اس مقدمے میں میرے علاوہ دی نیوز کے ضیااللہ نیازی، علی رضا اور ندیم علوی مرحوم بھی ملزم تھے۔ مقدمے کی تفصیل سے تو کالم طویل ہو جائے گا بس اتنا عرض ہے کہ اس کا مدعی ایک پولیس افسر تھا جس نے نواز شہباز حکومت کے جانے کے بعد عدالت میں بیان دیا کہ مجھ پر یہ ایف آئی آر درج کرنے کے لیے حکومتی دباو¿ تھا جس کے بعد ہماری خلاصی ہو گئی۔ ہمارا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سنا جاتا تھا۔ وہ تو بھلا ہو جج صاحبان کا کہ حکومت کی ایڑی چوٹی کی کوششوں کے باوجود حکومت ہمارے جسمانی ریمانڈ سے محروم رہی۔ اس وقت سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی تھے اور راجہ بشارت وزیر قانون انہوں نے بھی یہ مقدمہ ختم کرانے میں بہت ساتھ دیا ان کا بھی جتنا شکریہ ادا کریں کم ہے۔ پوری پنجاب اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے ہم پر مقدمات ختم کرنے کو کہا لیکن بادشاہ سلامت شہباز شریف کو یہ منظور نہ تھا۔ یہ سب دیکھتے ہوئے مجھے میر شکیل الرحمان نے ایک سال کے لیے سکالرشپ پر امریکہ بھیج دیا اور آخر ہم عدلیہ سے ہی بری ہوئے۔ پھر وقت کا کانٹا بدلہ اور ڈکٹیٹر مشرف نے نواز حکومت پر شب خون مار دیا میں بھی امریکہ سے واپس آ گیا۔ اسی دوران غالباً نواز شریف کے سسر کا انتقال ہو گیا تھا۔ نواز شریف اور شہباز شریف کو جیل سے رسم قل میں شرکت کے لیے بلایا گیا۔ میں بھی وہاں موجود تھا استاد محترم سرمد بشیر شہباز شریف کو میرے پاس لے آئے اور کہا جپھی پاو¿ تے صلح کرو۔ ایک رپورٹر کی اوقات کیا ہو سکتی ہے اور ویسے بھی ہماری کسی سے دشمنی نہیں ہوتی اور نہ ہی ہماری سکت ہوتی ہے اور یوں ہماری صلح ہو گئی۔ پھر جس کمرے میں نواز شریف اور شہباز شریف کو لے جایا گیا وہاں میرے علاوہ جیو نیوز کے موجودہ بیوروچیف رئیس انصاری کے علاوہ اعجازالحق بھی تھے اس کمرے کی گفتگو کا ذکر پھر کبھی سہی۔
آخر میں محترمہ مریم نوازشریف سے گزارش ہے کہ وہ اپنی سوشل میڈیا ٹیم کی نااہلی کا ایکشن ضرور لیں، جنہوں نے یہ تصویر جاری کر کے منصور علی خان جیسے تخلیقی ذہن رکھنے والے اینکر کو یہ تحقیق کرنے پر مجبور کیا۔ منصور علی خان کی تخلیقی صلاحیتیں دیکھ کر مجھے اپنی جوانی یاد آ گئی جب میں بھی اسی قسم کی صحافت کرتا تھا۔ اگر ممکن ہو تو اس گفٹ پیک میں کیا تھا کا بھی بتا دیں تا کہ سوشل میڈیا پر جاری افواہوں کا خاتمہ ہو سکے کیونکہ لیڈر پبلک پراپرٹی ہوتا ہے۔ بلکہ اس مہم جوئی میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ مملکت خداداد پاکستان میں کسی کے پاس Mouawad 1001 Nights Diamond Purse بھی موجود ہے جس کی قیمت چار ملین ڈالر بغیر ٹیکسز کے ہے۔ دروغ بہ گردن راوی لیکن قیمت سن کر ہماری کانپیں تو کیا پورا بدن ہی ٹانگ گیا تھا۔
کالم کے بارے میں اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کریں۔

مصنف کے بارے میں