خیبر پختونخواہ کا گائوں جس کی زبان دنیا میں کہیں اور نہیں بولی جاتی

خیبر پختونخواہ کا گائوں جس کی زبان دنیا میں کہیں اور نہیں بولی جاتی

پشاور:پاکستان کے پہاڑی سلسلے جہاں اپنی خوبصورتی اور بلندیوں کی وجہ سے مشہور ہیں وہیں یہاں تہذیب و تاریخ کا مختلف روپ بھی کسی نہ کسی صورت میں مل ہی جاتا ہے۔خیبر پختونخواہ کے پہاڑی سلسلے طور غر اور ضلع مانسہرہ کے سنگم پر واقع ڈنہ نامی گاﺅں بھی ایسی ہی ایک مثال ہے ۔یہ گاﺅں برف کی چادر میں ڈھکے خوبصورت پہاڑی سلسلے میں واقع ہے اور بہت چھوٹا سا ہے ۔

لیکن اس کی انفرادیت یہ ہے کہ اس گاﺅں میں بولی جانے والی زبان دنیا میں اور کہیں نہیں بولی جاتی ۔اس گاﺅں میں موجود 400لوگ ہی اس زبان کے وارث ہیں۔ڈنہ کی اس زبان کا کوئی نام بھی نہیں ہے اور نہ ہی دنیا بھر کی زبانوں کے کیٹلاگ ایتھنولاگ میں درج شدہ7079زبانوں میں اس زبان کا نام شامل ہے۔آس پاس کے لوگ اس زبان کو تراوڑہ یا منکیالی کہتے ہیں لیکن اس گاﺅں کے لوگ اس زبان کو ”اپنی زبان“ کا نام ہی دیتے ہیں۔
ماہر لسانیات ڈاکٹر عظمی کہتی ہیں ”کہ اس زبان کی 80فیصد کسی بھی زبان سے مماثلت نہیں ہے اور اس کا رشتہ کشمیری اور کوہستانی زبانوں سے ہے ۔لیکن اس زبان کا اپنا صرَف و نحو ہے اپنی صوتیات ہے اور اپنا ہی لسانی نظام ہے“۔

اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے زبان کے بولنے والے ہر سال کم ہو رہے ہیں۔گاﺅں کے ایک رہائشی کا کہنا ہے کہ ”زبان کے بولنے والوں میں کمی کی اصل وجہ یہ ہے کہ بہت سی شادیاں گاﺅں سے باہر ہوئیں ہیں جن کی زبان ہنکو یا کشمیری وغیرہ ہیں اور مائیں اپنے بچوں سے اپنی مادری زبان میں بات کرتی ہیں جس کے باعث زبان تیزی سے تنزلی کی طرف جا رہی ہے“۔اب اصل میں دیکھنا یہ ہے کہ اتنی کم تعداد میں بولنے والوں کی موجودگی میں یہ زبان کتنا عرصہ اپنی سانسیں بحال رکھ پاتی ہے۔