سانحہ بارکھان: ورثا کا لاشوں کے ساتھ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے باہر دھرنا جاری، عبدالرحمن کھیتران کی گرفتاری کا مطالبہ

سانحہ بارکھان: ورثا کا لاشوں کے ساتھ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے باہر دھرنا جاری، عبدالرحمن کھیتران کی گرفتاری کا مطالبہ
سورس: Twitter

کوئٹہ : بارکھان میں خاتون اور ان کے دو بیٹوں  کے قتل کے خلاف کوئٹہ میں ریڈ زون میں گورنرہاؤس کے قریب احتجاجی دھرنا دوسرے روز بھی جاری ہے ۔ دھرنے کے شرکاء کا کہنا ہے کہ سردار عبدالرحمان کھیتران کی گرفتاری جوڈیشل تحقیقات کے اعلان تک دھرنا جاری رہے گا۔ 

نیو نیوز کے مطابق بلوچستان حکومت نے بلوچستان کے ضلع بارکھان میں ایک کنویں سے ایک ہی خاندان کے تین افراد کی لاشیں ملنے کے واقعے اور اس کا الزام حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان اور صوبائی وزیر سردار عبد الرحمان کھیتران پر لگنے کے بعد اس معاملے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنانے کی ہدایت کی ہے۔

بارکھان سے متصل ضلع کوہلو میں خاتون اور ان کے دو بیٹوں کی نماز جنازہ تو ادا کی گئی لیکن ان کی تدفین کی بجائے مری قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد لاشوں کو کوئٹہ لائے اور وزیر اعلیٰ ہاﺅس کے قریب ہاکی چوک پر ان کو رکھ کر دھرنا دے د یا جو اب بھی جاری ہے۔ 

بلوچستان کے ضلع بارکھان میں ہلاک ہونے والی خاتون اور دو بچوں کے شوہر خان محمد مری نے الزام عائد کیا کہ ان کی بیوی اور سات بچے 2019 سے سردار عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں تھے جہاں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ ان کا الزام ہے کہ ان کے پانچ بچے اب بھی اس نجی جیل میں قید ہیں۔

خان محمد مری نے کہا کہ ان کے قبیلے کے افراد نے فیصلہ کیا ہے کہ مطالبات تسلیم ہونے تک کوئٹہ میں لاشوں کو وزیر اعلیٰ ہاﺅس کے سامنے رکھ کر احتجاج کیا جائے گا۔

دوسری جانب بلوچستان کے وزیر برائے مواصلات و تعمیرات سردار عبد الرحمان کھیتران نے اپنے خلاف لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاتون سمیت تینوں افراد کا قتل انہوں نے نہیں کیا بلکہ یہ ان کی ساکھ کو مجروح کرنے کے لیے ایک سازش ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی ہے کہ ان کی کوئی نجی جیل ہے۔

بارکھان پولیس کے سربراہ نور محمد بڑیچ نے کہا کہ واقعے کے بارے میں تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں انصاف اور قانون کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔

اس واقعے کی بازگشت بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بھی سنائی دی جہاں وزیر داخلہ میرضیاء اللہ لانگو نے واقعے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم قائم کرنے کا اعلان کیا۔

خاندان کا تعلق کوہلو سے ہے جہاں ہلاک ہونے والوں کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ ہلاک ہونے والی خاتون کی شناخت گراناز جبکہ ان کے بیٹوں کی شناخت بائیس سالہ محمد نواز اور پندرہ سالہ عبدالقادر کے ناموں سے ہوئی ہے۔

  

بارکھان پولیس کے سربراہ نور محمد بڑیچ نے بتایا کہ ان کی لاشیں حاجی کوٹ کے علاقے میں ایک کنویں سے برآمد کی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تینوں افراد کو گولیاں ماری گئی تھیں لیکن جائے وقوعہ سے کسی گولی کا خول نہیں ملا۔

ان کے مطابق اس سے لگتا ہے کہ تینوں افراد کو کہیں اور گولی مار کر ہلاک کیا گیا اور پھر ان کی لاشیں کنویں میں پھینک دی گئیں۔ خاتون کے شوہر خان محمد مری نے اپنی بیوی اور بیٹوں کی جو تصاویر شیئر کیں ان میں خاتون کا چہرہ مسخ ہے اور چہرے سے ان کی شناخت ممکن نہیں ہے۔ خان محمد مری نے بتایا کہ ہلاک کیے جانے والوں میں بائیس سالہ محمد نواز ان کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔

مصنف کے بارے میں