پاک ایران تعلقات

پاک ایران تعلقات

بلوچستان کے ضلع پنجگور میں پاک ایران بارڈر پر سرحد پار سے دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں 4سیکیورٹی اہلکار شہید ہوگئے۔آئی ایس پی آر کے مطابق بلوچستان کے ضلع پنجگورمیں پاک ایران سرحد کے چکاب سیکٹر میں سکیورٹی فورسز کو دوران گشت ایرانی سرزمین سے نشانہ بنایا گیا۔پاکستان اور ایران کے درمیان 900کلو میٹر طویل سرحد ہے جبکہ دونوں ممالک تاریخی طور اچھی ہمسائیگی کا ادا کرتے آئے ہیں۔مگر پچھلے کچھ عرصے سے ایرانی سر زمین سے پاکستان کو سکیورٹی خدشات لاحق ہیں۔ ماضی قریب میں بھی اگر دیکھا جائے توبھارتی جاسوس کلبھوشن یادو بھی ایرانی سرزمین پر ہی اپنا ٹھکانہ بنائے ہوئے تھا جسے مارچ 2016میں پاکستان میں داخلے کے وقت حراست میں لیا گیا،جبکہ کئی بلوچ  علیحدگی پسند وں کی ایران میں موجودگی بھی ایک کھلا راز ہے۔دونوں ممالک کے درمیان تجارت بھی ہوتی ہے ایک اچھے ہمسایہ ملک اور تجارتی تعلقات ایک عرصے سے چلے آرہے ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق بلوچستان کے ضلع پنجگور میں پاک ایران بارڈر پر دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا،جس میں دہشت گردوں نے سرحد پر گشت کرنے والے سکیورٹی فورسز کے قافلے کو نشانہ بنایا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں نے اس کارروائی کے لئے ایرانی سرزمین کا استعمال کیا،جس میں سکیورٹی فورسز کے 4اہلکار شہید ہو گئے۔ اس باعث تشویش صورتحال پر پاکستان کی جانب سے بار بار پوائنٹ اُٹھایا گیا ہے مگر ایران اپنی سرزمین کو پاکستان کیلئے باعث خطرہ عناصر سے ابھی تک پاک نہ کر سکا۔
حالیہ دہشت گردی کا واقعہ ایسے وقت پیش آیا جب دونوں ممالک میں تجارتی معاملات کو بڑھانے کی بات ہو رہی تھی،مگر اس طرح کے پُر تشدد واقعات رونما ہونے سے اعتماد کو دھچکا لگتا ہے۔اس طرح تجار تی سرگرمیاں متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ تجارت کے لیے کے لیے زیرو پوائنٹ گیٹ ایک دن کھلتا ہے اور پانچ دن بند رہتا ہے۔ایران کے ساتھ بلوچستان کے سرحدی شہر تفتان میں زیرو پوائنٹ کو ہفتے میں تین روز کے لیے تجارت کے لیے کھولا جاتا ہے۔ ایران،اور پاکستان دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کے مطابق پاکستان سے موسمی پھل جانے ہوتے ہیں جس کے لیے ہفتے میں ہر ملک کے دن مقرر ہیں لیکن پاکستان کے دن ایرانی بارڈر بند رہتا ہے۔
گزشتہ ایک سال سے پاکستان کا فروٹ بند کیا ہوا ہے۔زیرو پوائنٹ کی تجارت سے دو ڈھائی ہزار مزدوروں کا روزگار وابستہ ہے۔جن میں سے کچھ بارڈر سے سامان لادتے ہیں جبکہ دوسرے انہیں گاڑیوں پر لورڈ کرکے تفتان شہر میں دکانوں تک پہنچاتے ہیں۔اس طرح 15ہزار آبادی کے شہر تفتان کی معیشت اسی تجارت سے ہی چلتی ہے۔
ایران میں اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجائے تو زیرو پوائنٹ بند کر دیا جاتا ہے۔پاکستان اور ایران بارڈر 900کلومیٹر طویل جس میں بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاوہ واشک، پنجگور، کیچ، تربت، اور گوادر شامل ہیں۔
ان علاقوں کی آبادی کا زیادہ تر انحصار ایرانی تجارت پہ ہی ہے۔ان علاقوں میں اشیائے خورونوش،سمیت تیل،موٹر سائیکلں بھی ایرانی ہوتی ہیں۔پاکستان اور ایران، آپس کی تجارت کا حجم آٹھ ارب ڈالر تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن یہاں پہ بھی بے جا امریکی مداخلت،بے جا پابندیوں،اور غیر ریاستی عناصر اس میں ایک بڑی رکاوٹ نظر آتے ہیں۔ امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کا کوئی بینک ایران میں اپنی برانچ کھولنے کے لیے تیار نہیں جس کی وجہ سے یہ کاروبار نقد یا اشیاء کے بدلے اشیاء ہوتا ہے۔ابھی تک یہ معاملات جوں کے توں ہونے کی بنیادی وجہ  ماضی سے لے کر اب تک ہمارے ملک کی خارجہ پالیسی بہت کمزور رہی ہے، اور ابھی پاک ایران تعلقات کو مستحکم اور بہتر تجارتی مراسم کو برقرار اور فروغ دینے کے لیے کوئی پالیسی یا بہتر حکمت عملی سامنے نہیں آئی ہے۔
دہشت گردی کے واقعات کی ہمیشہ کی طرح دونوں ممالک کی جانب سے صرف مذمتی بیانات کافی نہ ہونگے بلکہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کو تمام ایسے غیر ملکی عناصر جو نہیں چاہ رہے کہ پاک ایران تعلقات مضبوط ہوں یا تجارت کو فروغ ملے اُن کو اگنور کرتے ہوئے فوری طور پہ مذ اکرات کیے جائیں اور دوستی کو مضبوط اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے پالیسی بنائی جائے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے دل سوز واقعات سے بچا جا سکے۔
گزشتہ برس دونوں ممالک نے دہشت گردی سے متعلق خدشات،سرحد کے اطراف جرائم منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام سر حد پار کرنے سے متعلق معاملات اور سرحدوں پر بازاروں کی تعمیر اور انتظامی معاملات پر کام کرنے کے لئے وزرات داخلہ کی سطح پہ ورکنگ گروپ تشکیل دیا تھا جبکہ دونوں ممالک میں مشترکہ عسکری ورکنگ کی تشکیل کی تجاویز بھی آچکی ہیں۔گزشتہ ہفتے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا،اور ایرانی چیف آف سٹاف کمیٹی جنرل محمد باقری کی ٹیلی فونک گفتگو میں یہ معاملہ زیر بحث آیا اور دونوں جانب فوجی ٹاسک فورس کے قیام پر آمادگی کا اظہار کیا گیا۔
مشترکہ سرحد کو دہشت گردوں کے خطرات سے محفوظ کرنے کیلئے سرحدوں پر مشترکہ گشت اور دونوں جانب کی سکیورٹی فورسز میں بہتر رابطہ کاری اور انٹیلی جنس کی شئیرنگ سے سرحد پر سمگلنگ اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے بہتر مدد لی جا سکے۔ مگر کسی علاقے کے اندر دوسرے ملک کے لیے منفی عزائم رکھنے والے عناصر کے ٹھکانے اگر موجود ہوئے تو مشترکہ ورکنگ کرنے سے وہ عناصر کامیاب نہ ہو سکیں گے۔چنانچہ دونوں ممالک کو آئندہ دہشت گردی سے نجات کے لیے  باہمی اعتماد سازی کے اقدامات یقینی بنانا ہونگے۔ یقینا پاکستان بھی اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں مگر ایران اور پاکستان کو مستقبل میں اپنی دوستی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے سکیورٹی حوالے سے مل کر پلاننگ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کو جتنا جلدی ہو سکے ممکن بنایا جانا چاہیے۔