اسلامک بینکنگ کابڑھتا ہوا رحجان

اسلامک بینکنگ کابڑھتا ہوا رحجان

سودی بینکنگ نظام نے جس طرح اقوام عالم کو اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے،اس کے باعث امیر،امیر تر اور غریب،غریب تر ہورہا ہے،یہودی ساہو کاروں نے مالیاتی اداروں اور سودی بینکنگ سسٹم کے ذریعہ دنیا کی بیشتر آبادی کو اپنے شکنجے میں لیا ہوا ہے جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اسلامک بینکنگ اور نفع ونقصان کی بنیاد پر کاروبارہی ایک واحد سہارا ہے،جسے اب دنیا بھر میں پذیرائی مل رہی ہے،پاکستان میں سب سے پہلے میزان بینک نے اسلامی بینکنگ سسٹم کا آغاز کیا،مولانا تقی عثمانی اس کے چیئر مین بنے،ان کی رہنمائی میں یہ سسٹم صارفین میں پذیرائی حاصل کررہا ہے،اسلامک بینکنگ کے سلسلے میں ہمارے ملک میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں،ویسے تو یہ سسٹم میزان بینک،السلامک بینک میں مکمل،جبکہ بینک الفلاح،فیصل بینک اسے مکمل اسلامک کرنے کے لئے کوشاں ہیں،باقی چند بینکوں میں ونڈوز قائم ہیں،سودی اور اسلامک دونوں سسٹم کام کررہے ہیں،اسلامک بینکنگ کے لئے شریعہ بورڈ موجود ہوجس کے لئے ہربینک میں تین سے لے کر پانچ ممبران جن میں شرعی سکالر،ایڈوائزر کا ہونا لازمی ہے جس کا ایک چیئرمین ہوتاہے،ایگزیکٹو کمیٹی ہوتی ہے جو سارے معاملات کی نگرانی کرتی ہے جبکہ دنیا بھر میں اکاؤنٹنگ اینڈ آڈیٹنگ آرگنائزیشن فار اسلامک فنانشل انسٹی ٹیوشن موجود ہے جو دنیا بھر میں اسلامی بینکنگ سسٹم کو مانیٹر کرتاہے،گزشتہ دنوں ہمارے ایک رشتہ دار صداقت اللہ خان جو کہ دبئی میں عرصہ دراز سے ڈپٹی چیف ایگزیکٹو آفیسر اینڈ سنیئر شریعہ ایگریکیوشن اینڈ آڈٹ آفیسر تعینات ہیں سے ایک شادی میں ملاقات ہوئی جو کہ عرب امارات میں اسلامی بینکنگ کے نفاذ کے سلسلے میں کافی سرگرم اور تجربہ کار بینکر ہیں ا نہوں نے ہم سے اسلامک بینکنگ کے سلسلے میں عام مسلمانوں خاص کر پاکستانیوں کی رہنمائی کے لئے سیر حاصل گفتگو کی جو 
کالم کی صورت میں پیش ہے،تاکہ سودی نظام کے متبادل کے طور پر اسلامک بینکنگ کا جو نظام موثر طریقے سے چل رہا ہے کے خلاف ہونے والی سازشوں اور غلط فہمیوں کا تدارک ہوسکے،انہوں نے بتایا کہ میزان بینک،السلامک بینک اور دبئی اسلامک بینک تینو ں کا لائسنس پاکستان میں سو فیصد اسلامک ہے،جبکہ یوبی ایل، ایچ بی ایل،الحبیب اور ایم سی بی ونڈو آپریشن کے ذریعے کام چلا رہے ہیں،ان کا اسلامی شریعہ بورڈ بھی موجود نہیں ہے اور زیادہ تر سودی سسٹم پر چل رہے ہیں ،دبئی کے معروف بینکار نے  اسلامک بینکوں میں حلال طریقے سے  پانچ مختلف  ذرائع  بتائے جن کے ذریعے سے کاروبار کرنا قرض لینا حلال ہے،
1 مرابہ (Murabah) اسمیں مثال کے طور پر کسی کو بینک سے گاڑی،سامان وغیرہ چاہیے جس کی شریعت نے اجازت دی ہو،مثلا شراب یا کوئی اور حرام کام نہ ہوتو بینک وہ چیز خرید کر مالک بن جائے گا، پھر وہ مالک بننے کے بعد خریدار کو دوسرے معاہدے کے تحت وہ چیز فروخت کرے گا اپنا منافع طے کرنے کے بعد اقساط میں خریدار رقم اد ا کرے گا،اگر کوئی قسط شارٹ ہوئی تووہ بینک کو چیریٹی کام کے لئے پیلنٹی ادا کرے گا کوئی مارک اپ نہ ہوگا،شریعہ نے پنلٹی لگانے کی اجازت دی ہے جوکہ فلاحی کاموں میں خرچ ہونی ہے،
2۔مضاربہ:  اس میں بینک کا پیسہ ہوتاہے اور آپ کی مہارت،آپ کاروبارچلارہے ہیں،آپ کو دس لاکھ روپے کی ضروت ہے،بینک آپ کو مضاربہ پر قرض دے گا،آپ منافع میں سے طے شدہ بینک کو دیں گے،اگر نقصا ن ہوگیا تو بینک برداشت کرے گا،بینک ایسی جگہ پر قرض کا روبار کے لئے نہیں دیتا جہاں نقصان کا اندیشہ زیادہ ہو۔
3شارقہ یا شراکت داری،پارٹنر شب۔ اس میں نفع ونقصان کی بنیاد پر شراکت داری ہوتی ہے،منافع بھی سرمایہ کاری کے لحاظ سے ملتا ہے،اگر بینک کی رقم زیادہ کاروبار میں لگی ہے تو وہ اس لحاظ سے منافع لے گا اور نقصان میں بھی اتنا ہی حصہ ڈالے گا،تمام معاملات منافع کے طے کرلئے جاتے ہیں جس کے مطابق کاروبار چلتاہے،
4  اجارہ۔ یعنی کرایہ پر دینا،مثال کے طور پر کسی کو پوری عمارت،مشینری کرایہ پر چاہئے تو بینک عمارت،مشینری کو خرید کر کرایہ طے کرکے خریدار کو دیدے گا اگر وہ عمارت کو خریدنا چاہتاہے تووہ لاگت اور کرایہ دونوں اقساط میں حصہ دے گا جس کی مدت کا تعین کرلیا جاتاہے۔
5  استثناء  (Manufactring) اس کاروبار کے تحت آپ کو گھر یا عمارت چاہیے بینک بنا کر دے گا،آپ اقساط میں ادائیگی کرکے یا مکمل ادائیگی کرکے وہ جائیداد حاصل کرسکتے ہیں،اجارہ اور استثناء میں فرق یہ ہے  کہ اجارہ میں عمارت،گھر تیارہ شدہ ہوتی ہے جبکہ دوسری قسم میں بینک تعمیر کروا کردیتاہے،دنیا بھر میں اسلامک بینکنگ سسٹم دن دگنی رات چگنی ترقی کررہا ہے،سودی بینک کی پراگرسس5 فیصد تک جبکہ اسلامی بینک سسٹم پندرہ سے بیس فیصد پراگراس دے رہا ہے،جرمنی،فرانس، سوئٹزرلینڈ،چائنا،روسی،برطانیہ،کینڈا،افغانستان،عرب امارت،قطر،عمان دیگر ممالک میں یہ سسٹم شرو ع ہوکر کامیابی سے چل رہا ہے،اب جبکہ پاکستان میں وفاقی شرعی عدالت نے سودی نظام کو بینکوں سے ختم کرنے کا حکم دیا ہے، تو ہمیں بھی مکمل طور پر اس ظلم کے نظام اور اللہ کے ساتھ جنگ سے تو بہ کرلینی چاہیے اور عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اسلامک بینکنگ سسٹم میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں اور اسے فروغ دیں کیونکہ اللہ تعالی نے سورہ بقرہ میں سود کو حرام اور تجارت کو حلال کردیا ہے جبکہ امام ابو حنیفہؒ کے فتویٰ کے مطابق سود لینے،دینے،گواہ اور لکھنے والے تمام برابرہیں۔ 75 سال ہوگئے ہیں ہم اسلام کے نام پر ملک حاصل کیے ہوئے ہیں لیکن یہاں تاحال یہودونصاریٰ کی طرز پر زندگی ہمارے بینکوں،تعلیمی اداروں،اسمبلیوں،افسر شاہی میں قائم دائم ہے۔ ہم نے سود جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے مخلصانہ کوشش کی ہی نہیں، اللہ کرے کہ کوئی مخلص قیادت آکر ایسا کرے۔آمین