ضمنی الیکشن اور اس کے اثرات

ضمنی الیکشن اور اس کے اثرات

پنجاب کے ضمنی انتخابات ہو گئے، نتائج آ گئے جو جاتے جاتے اپنے پیچھے بہت سے سوالات چھوڑ گئے۔ گو بہت سے تجزیہ کار نتائج سے یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ ہما رے عوام اب میچور ہو چکے ہیں، جبکہ انہی نتائج کی بنا پر میں کہنے پہ مجبور ہوں کہ ہما رے عوام اب بھی سیا سی بلوغت کو پہنچ نہیں پائے۔ وہ سیرت سے زیادہ صورت پہ توجہ دیئے ہوئے ہیں۔ اور یہ ہے وہ نچوڑ جس پہ یہ کالم آ گے بڑھے گا۔ چنانچہ پہلے تو میں وزیرِ اعظم پاکستان جناب شہباز شریف سے پوچھتا ہوں کہ آپ ریاست بچانے کیلئے مشکل فیصلے کیا کریں۔ عمران خان کی طرح کسی کو نہیں چھوڑوں گا، کسی کو NRO نہیں دوں گا، جھوٹا خط لہراتے، اسلام کے اوپر گول مول باتیں کرتے، چین جیسا نظام بناؤں گا، ریاست مدینہ بناؤں گا وغیرہ جیسے بڑی بڑی بونگیاں مارتے تب آج آپ کو کامیاب ملتی۔ پنجاب جہاں خان صاحب نے ایک ٹکے کا کام بھی نہیں کیا ہے سارے پنجاب کو شہباز شریف نے ہی نے مزین کیا ہوا ہے سڑکیں، ہسپتال، کالجز، موٹرویز، بجلی کے بڑے بڑے پلانٹس وغیرہ سب شریف خاندان کے کرامات ہیں لیکن افسوس آج پنجاب کے عوام یہ سارے احسانات بھول کر ایک جھوٹے انسان کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کیا۔ افسوس پنجاب کے عوام پر جنہوں نے شہباز شریف کے ایک مشکل فیصلے کو برداشت نہ کیا جبکہ پچھلے 4 سال سے مہنگائی کی چکی میں پوری قوم کو پیسنے والے ایک جھوٹے انسان کو کامیاب کرایا۔ چار ماہ میں پٹرول مہنگا ہونے کا ایک ہی مشکل فیصلہ برداشت نہ کیا۔ لیکن پچھلے 4 سال جب گھی کی قیمت 110 سے  490  تک بڑھ گئی برداشت کرتے رہے۔ چینی 45 سے 95 روپے پہ پہنچ گئی برداشت کرتے رہے، کھاد کی بوری  2800 سے 7300 پہ چلی گئی برداشت کرتے رہے، سیمنٹ بوری 490 سے 800 تک پہنچ گئی برداشت کرتے رہے، ڈالر 106 سے  184پہ چلا گیا برداشت کرتے رہے، قرضہ 22 ہزار ارب سے 52 ہزار ارب پہ پہنچ گیا برداشت کرتے رہے، پٹرول 85 سے 150 پہ لیکن برداشت کرتے رہے، جی ڈی پی 6.5 سے 5.97 پہ آ گئی لیکن برداشت کرتے رہے، سٹیٹ بینک آئی ایم ایف کو بیچ ڈالا گیا لیکن برداشت کرتے رہے، عوام کے پیسوں پہ سکھوں کیلئے اربوں روپے کے گردوارے بن گئے لیکن برداشت کرتے رہے، پنجاب کے عوام آپ پختونخوا میں جا کر صرف ایک مہینہ گزار دیں جہاں دس سال سے آج جن کو آپ نے ووٹ دیا کی موجودگی میں نہ سڑکیں صحیح نہ بجلی نہ پانی نہ گیس نہ آٹا نہ کوئی اچھا خاصا ہسپتال نہ کالج وغیرہ شاید پھر آپکو پتہ چلے گا کہ پنجاب پر اتنے احسانات کے ہوتے ہوئے واقعی شہباز شریف کے ساتھ ہم نے دھوکہ کیا۔ خیر نمک حرام کی تاریخ پڑی ہے ایوب خان کو کتا کہا بھٹو کو ویلکم کیا، بھٹو کو پھانسی دی ضیاء الحق کو صدر بنایا پھر فضا میں اڑا دیا، پاکستان کی سالمیت کو توڑ دو ٹکڑے کر دیے یہ گیم بیرونی لنکس کی وجہ سے ہوئے مگر استعمال پاکستانی ہی کئے گئے۔ بہر حال صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ پنجاب میں 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے 15نشستیں جیت کر کئی تجزیہ نگاروں کی 
رائے کو غلط ثابت کر دیا حالانکہ پی ٹی آئی کے حامی تجزیہ نگار دعویٰ کر رہے تھے کہ پی ٹی آئی فاتح رہے گی۔ پی ٹی آئی کے قائد عمران خان اور دوسرے لیڈر عوامی جلسوں اور اپنے میڈیا بیانات میں تواتر سے یہ کہہ رہے تھے کہ وہ بیس کی بیس نشستیں جیت جائیں گے جب کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے تجزیہ کاروں کا دعویٰ تھا کہ مسلم لیگ ن پندرہ سے سترہ نشستیں باآسانی جیت جائے گی لیکن نتائج مختلف نکلے ہیں، پاکستان مسلم لیگ (ن) صرف 4 سیٹیں جیت سکی ہے جب کہ ایک نشست پر آزاد امیدوار نے کامیابی حاصل کی ہے۔ پنجاب کے 20 حلقوں میں ٹرن آؤٹ 49.69 فیصد رہا۔ جن نشستوں پر اتوار کو پولنگ ہوئی یہ تمام حلقے تحریک انصاف کے منحرف ارکان اسمبلی کے ڈی سیٹ ہونے سے خالی ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی کے ان ارکان نے اپنی پارٹی پالیسی کے خلاف (ن) لیگ کے وزیراعلیٰ حمزہ شہبازکو ووٹ دیا تھا، تحریک انصاف نے ان ارکان کی نااہلی کے لیے عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں الیکشن کمیشن نے 20 مئی کو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کر کے ان کی نشستیں خالی قرار دے دی تھیں۔ پنجاب بھر کے 14 اضلاع سے خالی ہونے والی، ان 20 نشستوں میں لاہور کی 4، راولپنڈی، خوشاب، بھکر، فیصل آباد، شیخوپورہ، ساہیوال، ملتان، بہاولنگر،لیہ کی ایک ایک، جھنگ کی 2، لودھراں کی 2، مظفر گڑھ کی 2 اور ڈیرہ غازی خان کی ایک نشست شامل تھی۔ بہرحال مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ ن لیگ کو کھلے دل سے نتائج تسلیم کرنے چاہئیں، عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکانا چاہیے، دل بڑا کرنا چاہیے، جہاں جہاں کمزوریاں ہیں ان کی نشاندہی کر کے انھیں دور کرنے کے لیے محنت کرنی چاہیے، ان شاء اللہ خیر ہو گی۔ علاوہ ازیں مسلم لیگ ن کے رہنما ملک احمد خان نے کہا ہے کہ وہ دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو تاریخی فتح ہوئی ہے۔ عوام کا ووٹ ہمارے خلاف آیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سے بات ہوئی ہے۔ انھوں نے بھی عوام کی رائے کا احترام کرنے کا کہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ عوام کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں، آج کی شکست شکستِ فاتحانہ ہے، مقابلہ اور جدوجہد جاری رہے گی، نتائج بتا رہے ہیں اسٹیبلشمنٹ اور پنجاب حکومت غیر جانبدار تھے۔ الیکشن کمیشن اور ریاستی ادارے مکمل غیر جانبدار تھے اور یہ مکمل سیاسی مقابلہ تھا۔ انھوں نے کہا یہ نشستیں مسلم لیگ (ن) کی نہیں تھیں، ان 20 نشستوں پر مسلم لیگ (ن) ہاری یا ہروائی گئی تھی اور مخالف جیتے تھے۔ ہم نے جو چار سیٹیں حاصل کی ہیں وہی ہیں جو ہاری تھیں اور اب جیتی ہیں لیکن ہم نے اپنی کوئی سیٹ نہیں ہاری۔ یہ ایک اچھی روایت ہے، الیکشن میں شکست کو تسلیم کرنا جمہوری نظام اور جمہوری روایت کا اہم ترین جز ہے۔ ماضی میں یہی دیکھا گیا ہے کہ جو سیاسی جماعت الیکشن ہار جاتی ہے، وہ جیتنے والی جماعت پر دھاندلی کا الزام عائد کرتی ہے اور اس میں ریاستی اداروں کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اس بار مسلم لیگ ن کی لیڈرشپ نے دوٹوک انداز میں ضمنی الیکشن کے نتائج تسلیم کرکے مثبت رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ الیکشن کمیشن اور دیگر ریاستی اداروں یا حکومت پرالزامات عائد کرنے کے کلچر کو خیرباد کہہ دے اور پرامن اور شفاف الیکشن کرانے پر الیکشن کمیشن کے کردار کو سراہے کیونکہ یہی جمہوری سپرٹ ہے۔ ضمنی انتخابات میں 15 نشستیں جیتنے کے بعد پنجاب اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کی تازہ ترین صورتحال میں پی ٹی آئی پہلی پوزیشن پر آ گئی، 15 نئی نشستوں کے بعد پنجاب اسمبلی میں اس کے ارکان کی تعداد 178 پر پہنچ گئی جب کہ پی ٹی آئی کے وزارت اعلیٰ کے امیدوار کی جماعت مسلم لیگ ق کے پنجاب اسمبلی میں دس ارکان ہیں۔ یوں پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی ق لیگ کے ارکان کی تعداد ایک سو اٹھاسی ہو جاتی ہے جب کہ حالیہ ضمنی الیکشن میں 4 سیٹوں پر کامیابی کے بعد پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے ارکان کی تعداد 167 پر پہنچ گئی ہے۔ پیپلز پارٹی 7،آزاد ارکان کی تعداد 6 ہو گئی ہے۔ پاکستان راہ حق پارٹی کا ایک ممبر بھی اسمبلی کا حصہ ہے۔ یوں مسلم لیگ اور اس کے اتحادیوں کی تعداد وزارت اعلیٰ کے لیے مطلوب تعداد سے کم ہے، سیاسی جوڑ توڑ بھی جاری ہے، یہ کھیل کیا نتائج لاتا ہے، اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔

مصنف کے بارے میں