شہریت بنیادی حق، انٹیلی جنس رپورٹ پر نادرا کسی کی شہریت ختم نہیں کر سکتا، حافظ حمد اللہ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری

شہریت بنیادی حق، انٹیلی جنس رپورٹ پر نادرا کسی کی شہریت ختم نہیں کر سکتا، حافظ حمد اللہ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری
سورس: فوٹو: بشکریہ ٹوئٹر

اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حمداللہ کے شناختی کارڈ کی بحالی اور شہریت منسوخی سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے جس کے مطابق حافظ حمد اللہ کے ساتھ مزید 10 شہریوں کا شناختی کارڈ بھی بحال کیا گیا ہے۔ 
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 29 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ نادرا کسی کو بھی شہریت سے محروم کرنے کا اختیار نہیں رکھتا، نادرا کا کام صرف رجسٹریشن کرنا اور ڈیٹا بیس برقرار رکھنا ہے، نادرا خود سے نہ شناختی کارڈ بلاک کرسکتا ہے، نہ معطل ، نہ منسوخ کر سکتا ہے۔ 
عدالت نے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ شہریت کا معاملہ سٹیزن شپ ایکٹ کے تحت متعلقہ اتھارٹی ہی دیکھ سکتی ہے، شناختی کارڈ معطل یا بلاک کرنے کیلئے جوڈیشل آرڈر ضروری ہے، حافظ حمد اللہ پاکستان میں پیدا ہوئے، ان کا بیٹا پاک فوج میں خدمات انجام دے رہا ہے، کچھ ریکارڈ پر موجود نہیں آخر یہ نتیجہ نکالا کیسے گیا حمد اللہ اور دیگر پاکستانی شہری نہیں ہیں؟ 
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ محض کسی انٹیلی جنس ایجنسی کی رپورٹ پر نادرا کسی کی شہریت ختم نہیں کر سکتا، شہریت بنیادی حق ہے جس کے بغیر کوئی سیاسی، معاشرتی حقوق نہیں مل سکتے، پیدائشی پاکستانی قانونی طور پر خود بخود پاکستانی شہری بن جاتا ہے، پاکستان سمیت دنیا میں 35 ممالک ہیں جہاں پیدائش پر ہی شہریت ملنا شہری کا حق ہے۔ 
فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ شہریت قانون کے مطابق حاصل حق ہے یہ ریاست کا استحقاق نہیں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ یہ طے کرے پاکستان میں پیدا ہونے والا کیسے یہاں کا شہری نہیں؟ ناقص پالیسی کی وجہ ماضی میں کچھ نااہل لوگوں نے شناختی کارڈ حاصل کئے، اگر ایسا ہے تو اس کی ذمہ داری قانون بنانے والوں پر ہے، قانون کی خلاف ورزی کرکے کسی سے آئین میں دیا حق نہیں چھینا جا سکتا، نادرا کی آئینی ذمہ داری ہے قانون کے مطابق کام کرے اس سے باہر نہیں جا سکتے۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ نے جمعیت علمائے اسلام کے سابق سینیٹر حافظ حمداللہ کا شناختی کارڈ بلاک اور شہریت منسوخی کا حکم کالعدم جبکہ نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے اس اقدام کو اختیارات سے تجاوز قرار دیا تھا۔