ڈانوا ڈول حکومت اور ناقص میڈیا پالیسی

 ڈانوا ڈول حکومت اور ناقص میڈیا پالیسی

ملک اپنے بدترین سیاسی بحران سے گزر رہا ہے طویل لوڈشیڈنگ میں بیٹھی کالم لکھ رہی ہوں یو پی ایس ٹائپ چیزیں کیسے نہ جواب دیں گی جب کہ عوام مرنے والے ہو گئے ہیں۔ غربت مہنگائی مصائب دہلیزوں تک پہنچ چکے ہیں۔ مہنگی ادویہ اشیائے خوردونوش نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے اوپر سے نااہل کارکردگی میں روز افزوں حوصلہ شکن تقریریں لوگ بیچارے امیدیں باندھتے باندھتے ہیں ایں جارسید کہ اب حکومتیں سالوں نہیں مہینوں کے استحکام پر ٹک گئی ہیں۔ 
اعلیٰ عدلیہ کو سوموٹو لیکر ابھی ایک حکومت گرائے سانس بھی نہیںآتا کہ دوسری آنے والی حکومت کی زیرو کارکردگی پھر سے سوموٹو ایکشن پر مجبور کر دیتی ہے یہ بھی طے ہے کہ پہلی حکومت کی واپسی یا موجودہ کھچڑی کی طوالت سے مسائل حل نہ ہوں گے ہمارے ہاںہر سیاست دان کا آخری حتمی اور لازمی عنصر شیروانی سے ایوان حکومت تک ہوتا ہے اس کے بعد سب فوت ہو جاتے ہیں ۔ 
عموماً اس قسم کے بیان دیئے جاتے ہیں (جواب لوگوں کو رٹ گئے ہیں) یہ مسائل یہ قرضے ہمیں وراثت میں ملے ہیں۔ جب گوشوارے سامنے آئیں تو پتہ چلتاہے کہ صرف مسائل اور قرضے ہی وراثت میں نہیں ملے اربوں کھربوں بھی ملے ہیں۔ 
یہ سچ ہے کہ جمہوریت کے ثمرات ہوں گے پڑھے لکھے ذہنی طور پر ترقی یافتہ معاشروں کے مگر ہمارے ہاں مضمرات ہی مضمرات ہیں اس میں چور ڈاکو بھی حکمران بن سکتے ہیں اور نا اہل بھی کیونکہ چننے والے خود کمتر ترین سطح کے ذاتی مفاد پرست ہوتے ہیں جہاں بریانی اور قیمے والے نان پر جلسے اور تھانہ کچہری کا کلچر ہو گا وہاں حقیقی ووٹ ’’سواء پڑے گا۔
یہاں ووٹ کے لئے درجہ چہارم کی تمام سیٹوں پر سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے کارکن بھرتی کئے ہوتے ہیں جب میں ڈائریکٹر فیصل آباد آرٹس کونسل تھی تب ایک چپڑاسی کو کوئی سیاسی حکومت جاتے جاتے درجہ چہارم میں بھرتی کر گئی ابھی وہ مکمل طور پر نوٹیفکیشن حاصل نہ کر پایا تھا کہ اس کی نوازنے والی حکومت چلی گئی نئی حکومت نے آتے ہی ہم سے لسٹیں مانگ لیں کہ کون سے پچھلی حکومت کے بھرتی شدہ ہیں تآنکہ ان کی جگہ اپنے بھرتی کئے جائیں نئی حکومت کی خواتین اراکین تو میرے دفتر میں آ کر اپنے ڈرائیور سے کہنے لگیں میڈم کے کمرے سے سب پینٹنگ اتار کر گاڑی میں رکھ دو میں نے فوراً اپنے گارڈ بلوا کر ان محترمائوں کو کمرے سے باہر بھیجا۔ پولیس کے سربراہ سے بات کی، خیر وہ ادھورا بھرتی شدہ لڑکا زبردستی روز ڈیوٹی پر آنا شروع ہو گیا۔ نصرت فتح علی خان آڈیٹوریم کے باہر بیٹھ جاتا عملے نے شفایت کی تو اسے بلا کر سمجھایا کہ تم مت آیا کرو مہینے بعد تمہاری تنخواہ نہیں بننی تو تمہیں دکھ ہو گا جواباً اپنی پارٹی سربراہ کا نعرہ لگا کر کہنے لگا آپ تنخواہ کی فکر نہ کریں مجھے بس ملازم show کر دیں میں آپ اور ہال کے نام پر خود ہی اپنی تنخواہ اکٹھی کر لوں گا۔ خیر اس کی ذہنی سطح اور کم عمری سیاسی کارکن کی حیثیت کے مدنظر یہ رویہ کچھ عجیب نہ تھا مگر اس کی حمایت میں ایم پی اے، ایم این اے وزیر تک میری جان کھا گئے کئی تو یہاں تک کہتے میڈم آپ نے نوکری کرنی ہے ؟
گزشتہ حکومت سے نکل کر وہ نئی حکومت کے بھی ممبر بن چکے تھے میں عوام کو نعرہ زن دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں ادبی ثقافتی کالم چھوڑ کر انہیںآئینہ دکھائوں بھلے کچھ عرصہ ہی ۔
مزے کی بات یہ کہ قارئین زخم خوردہ پرانے بوڑھے صحافی بابے اپنی ذاتی خاندانی رنجش بھی انہی اداروں کے ذریعے نبھاتے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کے سڑکوں پر جم غفیر سیاسی پارٹیوں کے حق میں نہیں انتقامی رویئے میں ہے لوگ مسلسل بے انصافی میرٹ کی دھجیاں اڑتی پالیسی سے شدید غصہ میں ہیں اور اس کار خیر میں یہ ابلاغ کے ادارے سرفہرست ہیں یہ حکمران کو بھی گمراہ کرتے ہیں اس کے دشمنوں کو قریب لاتے ہیں اور دو تین بڑی اخباروں کے ایڈیٹروں کی خوشامد میں بچھ جاتے ہیں۔ خبریں لگوانے کے لئے عوامی مفادات اور انصاف کی تکڑی کو بیچ دیتے ہیں ۔گزشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان نے ایک خاتون صحافی کے قتل پر بہت دہائی دی مگر ان کی موجودگی میں سینکڑوں خواتین صحافیوں کا معاشی قتل ہو رہا ہے جس کے ذمہ دار اسلامی نکتہ نظر سے تو وہ خود ہی ہیں۔ وزیر اعظم جب وزیر اعلیٰ تھے تو تیز ترین کارکردگی ہم خود ان کی رقم کیا کرتے تھے جسے وہ سراہتے بھی بہت تھے کہ جب کام ہو گا تو ہم اعتراف کریں گے نہیں ہو گا تو لکھیں گے چاہے اس میں ہمارے ہاتھ قلم ہو جائیں۔ 
وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب ان متنازعہ اداروں اور ان کی بنائی گئی مفاد پرست صحافیوں کی لسٹوں پر ذرا غور فرمائیں۔ ہر دور میں حقیقی صحافت زخم کھاتی ہے اور بلیک میلرز اخبار کو بیچ کر فائدہ اٹھانے والے سرفہرست رہتے ہیں مگر جس تیزی سے دور بدل رہا ہے وہ جس کو دکھائی نہیں دے رہا وہ نہ صرف آنکھوں کا اندھا ہے عقل سے فارغ ہے۔ 
عمران خان نے اور کچھ کیا ہو نہ کیا ہو لوگوں کو اپنے حق کے لئے بولنا سکھا دیا ہے وہ وقت دور نہیں جب اکثریت میڈیا پرسن کی مسلم لیگ کی غلط میڈیا پالیسی کو چھوڑ کر عمران خان کے ساتھ ہو گی۔ اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنا اور اپنی کامیابیوں کو ناکامیاں بنانا کوئی پی ایم ایل این سے سیکھے۔

مصنف کے بارے میں