امید پرستی اور پاکستان کے عوام

امید پرستی اور پاکستان کے عوام
سورس: File

فرانس کے شہرہ آفاق مصنف والتئیر کی یوں تو سیکڑوں تحریریں ہیں۔ لیکن جو دوام اور شہرت اس کے ناول ”کاندید“ (اُمید پرست) کو حاصل ہوئی، اس مقام سے اس کی دوسری تحریریں محروم رہی ہیں۔ کاندید بنیادی طور پر انسانی زندگی میں حق و باطل، ظالم ا ور مظلوم کے اثرات کا بیان ہے۔ آج کا یورپ اٹھارویں صدی کی اس روشن خیال فکر کا نتیجہ ہے جس نے یورپ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو اپنے سحر میں لیا ۔ اسی تحریک کے نتیجے میں یورپ میں کلیسا کی بالادستی ختم ہوئی۔ فرد اور فکر کو آزادی ملی ، سائنس ، رواداری اور جمہوریت کے دورکا آغاز ہوا۔ یورپ کے اس فکر ی انقلاب میں جس کا آغاز 1789ءمیں انقلاب فرانس سے ہوا، والتئیر اور اس کی تحریروں کا ایک بڑا کردار رہا ہے۔اس کی انھی خدمات کے اعتراف میں اس کی میت کو ایک گمنام گاﺅں کے قبرستان سے نکلوا کر پیرس کے مشہور قبرستان میں دفنایا گیا اور اس کی قبر کی لوح پر ” اس نے ہمیں آزادی کے لیے تیار کیا“ لکھوایا گیا۔
اپنے شاہکار ناول کاندید میں والتیئرنے اپنے دور کے سیاسی ، معاشی، مذہبی ، سماجی،ادبی اور فلسفیانہ نظریات کا تنقیدی جائرہ لیا ہے۔ یوں تو ناول کاندید کے مختلف فکری زاویے ہیں ۔لیکن اس میں سب سے زیادہ جس شے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے وہ اُمید پرستی کے منفی پہلو ہیں۔اس دور کے اجارہ دار طبقات نے ” یہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں وہ تمام امکانی دنیاﺅں میں سے بہترین ہے“ کے نظریے کا پرچار کرکے فرد کے سماجی و معاشی استحصال کا جواز بنا رکھا تھا۔ مشہور انگریز شاعرالیگزنڈر پوپ ( 21مئی 1688 ء۔ 30 مئی 1744ء)اس نظریے کا پُرجوش مبلغ تھا۔ استحصالی طبقات کے اس نظریے کو والتیئر نے بری طرح رد کیا اور انکار میںمذہب کی سرحدیں پھلانگ کر دہریت اور خدا فراموشی کی کیفیت میں مبتلا ہوگیا ۔ بعض ناقدین کے نزدیک والتیئرنے ناول کاندید 1755ء میں لزبن کے ہولناک زلزلے سے متاثر ہوکر لکھا۔ جس میں تقریبا تیس ہزار مرد، عورتیں اور بچے اس دوران ہلاک ہوئے جب چرچ عبادت گزاروں سے بھرے ہوئے تھے۔والتیئر نے اس دور کے کلیسا سے یہ سوال پوچھا کہ اگر خدا نے ہماری دنیا کو تمام امکانی دنیاﺅں میں سے بہترین بنایا ہے تو پھر انسانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ کیوں ٹوٹتے ہیں؟۔ اہل کلیسا نے جو جواب دیئے ، ان سے والتیئرمطمئن نہ ہوا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ والتیئر، روسو اور کارل مارکس سمیت یورپ کے جن فلسفیوں نے جس مذہب کی مذمت اور انکار کیا وہ عیسائیت کی بدعات سے بھری شکل تھی۔ ستم یہ ہوا کہ ان مفکرین کے بعد آنے والے فلسفیوں اور پیروﺅںنے بھی مذاہب کا سائنسی جائزہ نہیں لیا اور مذہب کو کُلی طور پر مسترد کردیا۔ یہاں اسلام کے دو عظیم مسلم فلسفیوں اقبال اور ڈاکٹر علی شریعتی(ایران) نے آگے بڑھ کر مذہب کی مسخ شدہ حالت کے اسباب کا جائزہ لیا اور بتایا کہ حقیقی مذاہب کا مقصد توحید الہٰی کے تصور پر مبنی وہ توحیدی معاشرہ قائم کرنا تھا جو معاشی ا ور سماجی طبقات سے پاک ہو۔جہاں فرد، عبادت و تزکیہ نفس کے ذریعے نفسِ مطمئنہ حاصل کرسکے۔
فروری1759ءمیں شائع ہونے والے کاندید میں جن موضوعات اور مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔ وہ اس کی اشاعت کے تقریباََ اڑھائی سو سال گذرنے کے بعدبھی اسی شد و مد کے ساتھ قابل بحث اور حل طلب ہیں۔ عوام کی بیداری، اقتدار اور معاشی وسائل پر مخصوص طبقے کی اجارہ داری، مذہب کا سوءاستعمال آج بھی ترقی پذیر ممالک کا المیہ ہیں۔
2022 ءمیں پاکستان اپنا پچھترواں یوم آزادی منایا ہے ۔ نظریہ پاکستان سے لاکھوں افراد نے امیدیں وابستہ کی تھیں کہ خلقِ خدا کے راج کرنے دن اب آیا ہی چاہتے ہیں اور تکریمِ آدمیت جس کے لیے آزادی کی شرط ناگزیر ہے، اس کا حصول اب ہوا ہی چاہتا ہے۔ لیکن چشمِ فلک نے دیکھا کہ لاکھوں جانیں قربان کرکے جس وطن کی بنیاد رکھی گئی تھی اس کے وسائل پر سامراج کے نمائندے قابض ہوئے اور شاعر کو یہ کہنا پڑا کہ :
یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
لیکن وطنِ عزیز کے عوام کی ہمت اور استقامت کی داد دیجیے کہ ہر رات استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کی امید پر سوتے اور خواب د یکھتے ہیںاور دن میں اس خواب کی تعبیر ڈھونڈتے ہیں گویا :
غرض تصورِ شام و سحر میں جیتے ہیں
کا معاملہ ہے۔ قوم نے امید کا دامن اس وقت بھی نہیں چھوڑا جب 1970 ءکے عام انتخابات میں اجارہ دار طبقات نے اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل نہ ہونے دیا اور ملک دو لخت ہوگیا۔
قوم نے اُمید کا گھروندا اس وقت بھی ٹوٹنے نہیں دیا جب غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک قوم پرست اور منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکا کر ملک کا متفقہ آئین ایک دہائی تک مفلوج رکھا گیا۔ نوے کی دہائی میں بنتی ٹوٹتی جمہوری حکومتوں اور مشرف کے آمرانہ دور سے لے کرمسلم لیگ کی گزشتہ حکومت تک سب ہی سے عوام امیدیں وابستہ کیے رہے کہ ہوسکتا ہے ، شاید اب کی با ر! لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات :
نہ وہ بدلے نہ دل بدلا نہ دل کی آرزو بدلی
میں کیوں کر اعتبارِ انقلابِ آسماں کرلوں
2018ءکے انتخابات نے ایک پھر ثابت کیا ہے کہ ملک کا سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچہ جاگیرداروں ، وڈیروں، سرمایہ داروں اور مذہب کا سو استعمال کرنے والوں کے بری طرح شکنجے میں ہے۔کیا تحریک انصاف کی فتح کا عمران خان کی سماجی خدمات کا اعتراف تھی؟ یا پھر ان کی سیاسی جدوجہد کا ثمر؟ جواب نفی میں ہے۔ بنیادی طور پر تحریک انصاف کی کامیابی مرہون مِنت تھی ان سمجھوتوں کی جو اس نے روایتی سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کیے تھے ۔ قوم کی آنکھوں کے سامنے سمجھوتوں اور مصالحتوں کے یہ تمام مناظر گذرے۔ لیکن قوم کی وہی اُمید پرستی غالب آئی اور تحریک انصاف فتحیاب ہوئی تھی۔
شجر سے وابستہ رہتے ہوئے اُمید اور پیہم اُمید پر قائم رہنا ابتدائی قدم ہے۔ خواب بھی ان ہی کے پورے ہوتے ہیں جو خواب دیکھتے ہیں۔ مسکینی، محکومی او رنااُمیدی کی اقبال نے بھی مذمت کی ہے ۔ لیکن اُمید کی بارآوری کے لیے عمل اور مستقل عمل شرط ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قولِ مبارک ہے کہ ”بے شک اللہ تعالیٰ لمبی اُمیدیں باندھنے والے بدعمل سے ہر لمحہ ناراض رہتے ہیں“۔ دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کی امیدیں لمبی اور دراز ہوتی ہیں، اس کے اعمال بُرے اور خراب ہوتے ہیں“۔یہ کیسے ممکن ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں شعور اور آگہی کی اُبھرتی فکری لہروںسے صرفِ نظر کرکے کسی درست سمت میں منظم جدو جہد کے بغیر فقط خواب دیکھنے اور امیدیں باندھنے سے استحصالی نظام سے نجات حاصل کی جاسکے ۔ اقبال نے کہا تھا کہ:
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کردے
کہ ترے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
خدا جانے قوم نے مزید ابھی کتنے طوفان دیکھنے ہیں۔ یہاں تو ایک طوفان کے بعد دوسرا طوفان اور ایک دریا کے بعد دوسرے دریا کا سامنا ہے۔ وطنِ عزیز کی نظریاتی اور جغرافیا ئی سرحدوں کی نگہبانی ہر شہری کا فرض ہے ۔ ان ہی سرحدوں میں رہتے ہوئے مثبت اور حقیقی تبدیلی کی جدوجہد کرنی چاہیے ۔ جیسا کہ والتیئرنے کاندید کے اختتام میں لکھا کہ:”ہم کو اپنے باغ کی لازماََ دیکھ بھال کرنی چاہیے“۔

مصنف کے بارے میں