نمبروں کا سونامی۔۔۔۔ کس سے گلہ کریں؟

Dr Lunba Zaheer, Pakistan, Naibaat newspaper,e-paper, Lahore

تعلیم و تدریس سے تعلق کے باعث مجھے تو افسوس ہوتا ہے کہ ہم نے اس مرتبہ میٹرک کے طلبہ و طالبات کا جو حشر کیا ہے، اس کے اثرات نہ جانے ان کے مستقبل پر کیا پڑیں گے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ پاکستان کی ہر بات پر ساری دنیا نگاہیں لگائے بیٹھی ہے۔ کبھی ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہمارا پاسپورٹ اب صومالیہ سے بھی نیچے آگیا ہے۔ کبھی خبر آتی ہے کہ فاٹف ہمیں گرے لسٹ سے نکالنے پر تیار نہیں۔ کبھی بتایا جاتا ہے کہ ہم دنیا کے ان ممالک کی فہرست میں بہت نیچے آگئے ہیں جہاں قانون و انصاف کی عمل داری ہے۔ تازہ خبر یہ آئی ہے کہ ارجنٹائن، ترکی اور برازیل کے بعد پاکستان دنیا کا چوتھا سب سے مہنگا ملک ہے۔ کبھی پتہ چلتا ہے کہ ہمارے روپے کی قدر انتہائی تیزی کے ساتھ گرتی جا رہی ہے اور کچھ ہی دن میں ایک ڈالر ایک سو اسی روپے تک جا پہنچے گا۔ ان میں سے کوئی خبر بھی ہمارے لئے خوشی یا تسکین کا باعث نہیں۔ لیکن جو کچھ ہم نے اپنی نئی نسل سے کر دیا ہے اس کا خمیازہ صرف وہی نہیں، ان کے والدین بھی بھگتتے رہیں گے اور ہمارے ملک کے نظام تعلیم کا نہ جانے کہاں کہاں مذاق اڑتا رہے گا۔
آپ کو یاد ہو گا کہ ایک وفاقی وزیر صاحب نے اسمبلی میں بیان دیا تھا کہ ہمارے چھ سو کے لگ بھگ پائیلٹس جعلی ڈگریاں رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اس بیان کے اثرات کیا ہوں گے؟ شاید ان کے نزدیک زیادہ اہم بات یہ تھی کہ وہ گزشتہ حکومت کو تنقید کا نشانہ  بنائیں کہ وہ جعلی لائسنس جاری کرتے رہے۔ اس سیاسی پوائنٹ اسکورنگ میں تو وہ شاید کامیاب رہے ہوں لیکن اس قوم کو یاد بھی نہیں کہ جون 2020، یعنی یہ بیان سامنے آنے سے لے کر اب تک ڈیڑھ سال کے عرصے میں ابھی تک یورپی یونین کے ممالک میں پی۔آئی۔اے کی پروازیں بند ہیں او راربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ اسی طرح جب ہم دھڑلے سے جعلی یا دو نمبر ڈاکٹروں کا ذکر کرتے اور بڑی بڑی خبریں لگواتے ہیں تو دنیا بھر میں پیغام جاتا ہے کہ ہمارے ڈاکٹر ز جعلی ہیں لہذا ان سے دور رہا جائے۔
اب یہی حال ہم نے اپنے بچوں کا کر دیا ہے۔ یہ بچے سکولوں میں نہیں جا سکے، اپنے اساتذہ سے باضابطہ تعلیم حاصل نہیں کر سکے، چھوٹے موٹے داخلی امتحانات اور ٹیسٹس  وغیرہ نہیں دے سکے، ڈھیروں ہوم ورک نہیں کر سکے، سکول کے علاوہ بہتر تیاری کے لئے ماں باپ ان کے لئے ٹیوشنز لگواتے ہیں، وہ مختلف قسم کی اکیڈمیز جاتے ہیں، سو سو پاپڑ بیلتے ہیں تب جا کے کوئی اسی فی صد سے اوپر نمبر لے سکتا ہے۔ لاتعداد سیکنڈ ڈویژن اور بے شمار تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوتے ہیں۔ انہیں ان نمبروں اور داخلہ ٹیسٹس کی بنیاد پر کالجوں، یونیورسٹیوں اور پیشہ وارانہ کالجوں میں داخلہ ملتا ہے۔ کسی کا پہلا انتخاب انجینئرنگ، کسی کا میڈیکل ہوتا ہے۔ ان شعبوں میں داخلہ نہ لے سکنے والے آرٹس اور دیگر شعبوں کی طرف نکل جاتے ہیں۔ 
اب کے تو نمبروں کے سونامی نے وہ تباہی مچائی ہے کہ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ آگے کیا ہو گا۔ پہلا سبق ہمیں یہ ملا ہے کہ سکول کھلے ہوں، طلبہ باقاعدگی سے کلاسوں میں جا رہے ہوں، اساتذہ بڑی محنت اور توجہ سے پڑھا رہے ہوں، ٹیوشنز لی جا رہی ہوں، اکیڈمیز سے استفادہ کیا جار ہا ہوتو تب بھی اتنے نمبر نہیں آسکتے جتنے نمبر سکول بند رہنے، کھیل کود اور آوارہ گردی میں دن گزارنے، کتابوں سے دور رہنے اور امتحانات میں جوابی کاپیاں کوری چھوڑ کر آنے سے ملتے ہیں۔ اگر یہی کچھ ہونا ہے تو پھر کیا حاصل رسمی تعلیم کا۔ کرونا کیا صرف پاکستان میں آیا؟ کیا ساری دنیا اس وبا سے متاثر نہیں ہوئی؟ کیا وہاں تعلیمی ادارے بند نہیں رہے؟ ہماری حکومت تو فخریہ بتاتی ہے کہ اس نے کرونا پر قابو پانے کے حوالے سے مثالی کام کیا ہے۔ اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہم کرونا کے منفی اثرات سے نکل آئے ہیں۔ ہماری صنعتیں چل پڑی ہیں اور معیشت ترقی کرنے لگی ہے۔ ان دعووں کی صداقت کو ایک طرف رکھتے ہوئے کوئی اتنا تو بتائے کہ ہم نے اپنے طلبا ء و طالبات کی تعلیمی اہلیت کو جانچنے کا کیا معیار متعین کیا تھا؟یکساں نصاب کا چرچا کرتے کرتے ہم نے لاکھوں طلبہ و طالبات کو بھی ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیا اور سب کو تقریبا یکساں نمبردے کر ایک ایسی نظیر قائم کی ہے جس کی مثال شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک میں مل سکے۔ نمبروں کا یہ جمعہ بازار انڈے بچے دیتا رہے گا اور اتنے نمبر ان طالب علموں کے لئے اعزاز کے بجائے، رسوائی کا سامان بنے رہیں گے۔ جوں ہی وہ اپنے نمبر بتائے گا، پوچھا جائے گا، تم نے کس سال امتحان پاس کیا۔ جیسے ہی 2020-21 کا ذکر آئے گا سننے والا ایک قہقہہ لگائے گا اور طالب علم شرمندہ ہو کر سر نیچے کر لے گا۔
میں نے گزشتہ کالم میں کچھ اعداد و شمار پیش کئے تھے۔ کچھ اور سن لیں۔ ملتان بورڈ کے نتائج کے مطابق 550 طلبا و طالبات نے گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر حاصل کئے۔ اگر کل نمبر 1200 ہوتے تو یہ بچے 1200 نمبر حاصل کر لیتے۔ کیونکہ ان نمبروں کا تعلق بچوں کی جوابی امتحانی کاپیوں کی جانچ پڑتال سے نہیں، اس فارمولے سے ہے جو ہمارے نہایت ہی قابل اور لائق فائق تعلیمی حکام نے بنایا۔ ڈیرہ غازی خان بورڈ میں 432 ہونہار بچے گیارہ سو نمبر لینے میں کامیاب رہے۔ بہاولپور بورڈ میں ایسے ذہین فطین بچوں کی تعداد 242 رہی۔ میں پہلے ہی بتا چکی ہوں کہ لاہور بورڈ سب پر سبقت لے گیا جہاں 707 بچوں نے گیارہ سو نمبر حاصل کئے۔ فارمولے کے مطابق کچھ ایسے بچے بھی ہیں جو گیارہ سو کی حد عبور کر گئے۔ 
او لیول اور اے لیول کے نتائج پر کاووڈ کے اتنے خوشگوار اثرات نہیں پڑے۔ وہ اتنا ہی گر یڈ لے کر کالجوں،یونیورسٹیوں اور پیشہ وارانہ اداروں کا رخ کریں گے، جتنے عمومی حالات میں کوئی طالب علم حاصل کر سکتا ہے۔ نمبروں کے اس سونامی میں ان ہونہار بچوں کی دال کیسے گلے گی؟ صورتحال یہ ہے کہ اگر کسی کالج میں فرسٹ ائیر کے لئے پانچ سو نئے طالب علم داخل کرنے کی گنجائش ہے تو عام حالات میں 65,70 فی صد نمبر لینے والا طالب علم داخلہ لے لیتا تھا۔ اب 500 طلباء کی حد 98  فی صد نمبروں والے طالب علم پر ختم ہو جاتی ہے۔ پہلے کچھ فیل ہوتے، کچھ تھرڈ ڈویژن میں چلے جاتے اور کچھ سیکنڈ ڈویژن کے باوجود داخلے سے محروم رہتے اور متبادل راستے اختیار کرتے تھے۔ اب پاس ہو جانے والے سبھی طلبہ و طالبات افلاطونی اہلیت کے حامل ہیں۔ 95 فی صد سے کم شاید کوئی ڈھونڈنے سے ہی ملے۔ سو کیا بنے گا؟ یہ بھی سوچیے کہ جب یہ بچے باہر کی یونیورسٹیوں میں داخلے کی کوشش کریں گے تو ان پر کیا گزرے گی؟
باتیں یوں کرتے ہیں جیسے آسمان سے تارے بھی تو ڑ کر لا سکتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ ہم بچوں کی تعلیمی حالت جانچنے کا معتبر فارمولہ بھی نہیں بنا سکتے۔ گلہ کریں بھی تو کس سے؟