تھیلے کی بلی

تھیلے کی بلی

کسی نے کیا خوب کہا کہ عمران خان اپنے دور حکومت میں نئے آرمی چیف کی تقرری کاشوق پورا نہیں کر سکے اور باجوہ صاحب کو توسیع دے دی تو اب دوسرے انھیں یہ شوق کیسے پورا کرنے دیں گے۔”ہے نہ پاگلوں والی بات“۔پہلے سوچا کہ کالم کا عنوان رکھیں کہ بلی تھیلے سے باہر آ گئی لیکن پھر سوچا کہ بات تو تھیلے کی بلی کی ہی کرنی ہے تو عنوان مختصر کر دیں تو کیا حرج ہے تو جناب عمران خان صاحب کی بلی بالآخر تھیلے سے باہر آ ہی گئی ہے حالانکہ یہ بلی پہلے دن سے ہی اچک اچک کر تھیلے سے باہر آنے کی کوشش کر رہی تھی جس کی وجہ اس کاکچا چھٹا پہلے ہی سب کو معلوم ہو چکا تھا لیکن اب جبکہ یہ بلی پوری طرح تھیلے سے باہر آ کر اپنی رونمائی کرا رہی ہے تو ہمارے مخاطب تو وہ صاحبان ہیں کہ جب موجودہ حکومت کو بحالت مجبوری ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے مشکل فیصلے کرنا پڑے اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی مقبول عوامی فیصلے تو نہیں تھے ان سے عوامی مقبولیت پر اچھا خاصا اثر پڑا تھا اور یہی خان صاحب کی مکارکردگی کا اصل سرپرائز تھا۔جب ان مشکل فیصلوں کی وجہ سے عوام میں موجودہ حکومت پر تنقید ہونا شروع ہوئی تو نہ صرف یہ کہ ہمارے کچھ جذباتی بھائیوں نے بلکہ حد یہ ہوئی کہ ملک کے کچھ نامور صحافیوں اور اینکر پرسن نے بھی پاکستان پیپلز پارٹی پر زبردست تنقید کرتے ہوئے نواز لیگ کے لتے لینا شروع کر دیئے کہ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ حکومت میں آنا بہت بڑی غلطی ہے اور اب بھی وقت ہے کہ نئے انتخابات کا اعلان کریں اور حکومت نگرانوں کے سپرد کر کے اپنی جان چھڑائیں۔جو لوگ ایسی باتیں کر رہے تھے ان میں سے کچھ تو واقعی مخلص تھے لیکن وقتی طور پر جذباتی ہو گئے تھے لیکن کچھ نادان دوست کہہ لیں یا کالی بھیڑیں جو حکومتی صفوں میں رہ کر کالی بھیڑوں کا کردار ادا کر رہی تھیں۔ہم نے اس وقت بھی عرض کیا تھا کہ یہ سارا کھڑاک ہی نومبر کے مہینہ میں فیض یاب ہونے کے سلسلہ کی کڑی ہے اگر نومبر کا مہینہ بیچ میں نہ ہوتا تو اندھے کو بھی نظر آ رہا تھا کہ جس طرح خان صاحب نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کر کے اس کی شرائط کی جان بوجھ کر خلاف ورزی کی اور معیشت کی راہ میں جس طرح انھوں نے آنے والوں کے لئے بارودی سرنگیں بچھائی تھیں تو اس سے صاف پتا چل رہا تھا کہ کیا مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
 حکومت میں آنے کا فیصلہ خوب سوچ سمجھ کر کیا گیا اس لئے کہ ہم کسی پر رائے زنی نہیں کریں گے لیکن عمران خان صاحب اپنے تئیں یہ سمجھے بیٹھیں تھے کہ اگر نومبر کی تعیناتی ان کی مرضی کے مطابق ہو گی تو بس پھر ”ستے خیراں نیں“۔ کس کی مجال ہو گی کہ خان صاحب کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھ سکے۔ بس پھر ایک فاشسٹ نظام ہونا تھا۔ سیاست اور صحافت سمیت کسی بھی شعبہ کے ایرے غیرے نتھو خیرے کو خان صاحب کے خلاف بات کرنے کی جرأت نہیں ہونی تھی لیکن افسوس کہ ایسا نہیں سکا اور اس بات کا بھی سب کو علم ہے کہ خان صاحب بیساکھیوں کے بغیر کچھ کر نہیں سکتے تو شروع میں تو انھیں اس بات کا یقین تھا کہ جو بارودی سرنگیں میں نے بچھا رکھی ہیں ان میں سے کسی سے تو حکومت ٹکرائے گی اسی لئے وہ شروع میں اپنی فطری روش کے مطابق کہتے تھے کہ ان کے ذہن میں تو کبھی آرمی چیف کی تقرری کی سوچ آئی ہی نہیں لیکن اب جیسے ہی الیکشن کے امکانات ختم ہوئے اور نئے آرمی چیف کی تقرری قریب آتی جا رہی ہے تو انھیں پڑتھو پڑنا شروع ہو گئے ہیں اور اس وقت ان کی جو حالت ہے اس سے لگتا ہے کہ وہ اسے زندگی موت کا مسئلہ بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ہمیں لگ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کی حالت مزید خراب سے خراب تر ہوتی چلی جائے گی حالانکہ اس میں اتنا جذباتی ہونے والی بات نہیں ہے اس لئے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے تو جنرل ضیاء کے بعد شاید ہی کسی آرمی چیف کی تقرری کی ہو لیکن کیا اس کی سیاست ختم ہو گئی ہے اور دوسری جانب میاں نواز شریف نے جن آرمی چیفس کا تقرر کیا تھا انھی کے دور میں ان کے ساتھ کیا ہوا تھا یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے تو عرض کرنے کا مقصد یہی ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کوئی بھی کرے افواج پاکستان نے اپنی پالیسی کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے اور ماضی کی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے۔
لیکن اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ آخر خان صاحب کو اس بات کی سمجھ کیوں نہیں آ رہی تو یہ کوئی مشکل سوال نہیں۔ اس لئے کہ خان صاحب کی جو ذہنی کیفیت ہے اس میں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ اگر نئے آرمی چیف کی تقرری وہ کریں گے تو وہ کسی تھانہ کے ایس ایچ او کی طرح ان کی جی حضوری کرے گا اور دوسرا جب سے انھیں حکومت سے بے دخل کیا گیا ہے تو انھوں نے یہ سو چ رکھا ہے کہ نہ کھیلنا ہے اور نہ کسی کو کھیلنے دینا ہے۔ یہ تو آرمی چیف کا مسئلہ ہے لیکن سوچیں کہ پنجاب میں بیس میں سے پندرہ نشستیں جیت کر بھی اگر الیکشن کمیشن ان کے نشانے پر ہے تو اس سے سمجھ جائیں کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ خان صاحب ہر ادارے کو متنازع بنانا چاہتے ہیں تو پھر ان کا طرز سیاست لوگوں کی اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر رہا ہے۔خان صاحب کی اب تک کی سیاست سے ایک بات تو واضح ہو چکی ہے کہ ہر وہ منفی عمل کہ جس پر وہ خود عمل پیرا ہوتے ہیں اس کا الزام بڑے دھڑلے سے وہ دوسروں پر لگا دیتے ہیں اور اس کام میں انھیں اب انھیں اتنی مہارت ہو چکی ہے کہ اندازہ لگائیں موجودہ حکومت ان پر کرپشن کے جو الزام لگا رہی ہے وہ اسے تسلیم بھی کر رہے ہیں اور ساتھ میں ان کی جماعت کے افراد کہہ رہے ہیں کہ گھڑی چوری کا الزام یہ بھی کوئی الزام ہے۔اپنے ہر خطاب میں دوسروں کو دھمکیاں دے کر خوف کی سیاست خود کرتے ہیں اور الزام دوسروں پر لگاتے ہیں۔ دوسروں پر امپورٹڈ حکومت کا لزام لگا کر خود امریکنوں سے خفیہ ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ میاں شہباز شریف کو ہر جلسہ میں چیری بلاسم کہتے ہیں لیکن پھر بقول عبد القیوم صدیقی اور عظیم چوہدری کے ترلے منتیں کر کے جنرل باجوہ سے ملاقات بھی کرتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ اس ملاقات میں بات نہ بن سکی تو بعینہ اسی طرح خان صاحب کے اپنے ذہن میں نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد جس فاشسٹ طرز حکومت کا نقشہ تھا اسی کا الزام دوسروں پر لگا کر انھیں متنازع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ در حقیقت یہ ان کے اپنے ذہن کا خوف ہے اور جو کام انھوں نے اپنے دور حکومت میں کئے ہیں ان کے احتساب کا خوف انھیں چین نہیں لینے دے رہا لیکن جس طرح گذشتہ چار پانچ ماہ گذر گئے اور تاریخ پر تاریخ دینے کے باوجود بھی حکومت اپنی جگہ قائم ہے اسی طرح ستمبر اور پھر اکتوبر بھی خیریت سے گذر جائیں گے اور آئین کے تحت موجودہ وزیر اعظم ہی نئے آرمی چیف کی تقرری کریں گے اور خدا نے چاہا تو قوی امید ہے کہ پھر حالات میں بہتری آنا شروع ہو جائے گی۔

مصنف کے بارے میں