فوج تنقید کا نشانہ کیوں؟؟؟؟

 فوج تنقید کا نشانہ کیوں؟؟؟؟

ہمارے ہاں بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے ہمیشہ فوج کے کاندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آنے کی کوشش کی لیکن جب اپنا مقصد نکل جاتا  ہے تو یہ فوج کے خلاف فرنٹ محاذ پر کھڑے نظر آتے  ہیں کیونکہ یہ اس وقت اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔اگر ہم بھٹو سے ابتدا کریں تو دیکھیں گے کہ انھوں نے اپنی سیاست کا آغازاس وقت کے صدر جنرل ایوب خان سے کیا اور وزارت عظمی کے منصب پر پہنچے بلکہ انکا شمار آج بھی پاکستان کے مقبول ترین لیڈرز میں ہوتا ہے لیکن ان کے اقتدار کے آخری دور میں سول ملٹری تعلقات اس حد تک بگڑ گئے کہ انہیں جنرل ضیاء الحق نے تختہ دار تک پہنچا دیا۔ پیپلزپارٹی کا دورجب دوبارہ آیا تو اسی وقت میمو گیٹ سکینڈل بھی سامنے آیا۔ دوسری طرف جنرل ضیا ء الحق کے دور میں ہے ان کی اپنی بنائی ہوئی سول حکومت میںاس وقت کے وزیر اعظم  محمد خان جونیجو کو بھی گھر جانا پڑا ۔ اسی دوران نواز شریف کی سیاست پنپ چکی تھی ضیا الحق کے بعد بھی ان کے فوج سے اچھے تعلقات رہے لیکن وہ تین مرتبہ اقتدار میں آئے تینوں مرتبہ انکے گھر جانے کی وجہ سول ملٹری تعلقات ہی بنے  کبھی ڈان لیکس کا قصہ سامنے آیا اور کبھی روگ آرمی کے اشتہار کا ۔اس بار نواز شریف کی فراغت کی جو بھی وجہ بنی  انھوں نے فارغ ہونے کے بعد خوب دل کی بھڑاس نکالی گوجرانوالہ میں ہونے والا جلسہ اس کی مثال آپ ہے جس میں انھوں نے نام لے کر بتایا کہ ان کی حکومت کس طرح اور کس نے ختم کی بعد ازاں ان کے اس بیانیہ کو مریم نواز نے خوب آگے بڑھایا۔اگر چہ اب اس بیانیہ میں یو ٹرن آ چکا ہے  ۔عمران خان کی حکومت بنی تو سول ملٹری تعلقات مثالی تھے سب ایک پیج پر تھے لیکن یہ پیج ایک وقت کے بعد  قائم نہ رہ سکا مسئلہ اس وقت ہوا  جب وزیر اعظم نے آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری پر اختلاف کیا ۔اس کے بعد پیج میں دڑار آ گئی فوج نیوٹرل ہو گئی اور وہ حکومت جو کسی سہارے پر کھڑی تھی نیچے گرنے میں دیر نہ لگی ا۔ گرچہ انھوں نے اپنی حکومت سے علیحدگی کو ایک خط کا بیانیہ  بنانے کی کوشش کی لیکن انھیں بھی علم ہے کہ اس بیانیہ سے جلد ہوا نکل جائے گی اس لئے ان کے ساتھی کھل کر اپنی حکومت سے علیحدگی کا ذمہ دار فوج کو قرار دے رہے ہیں  ان کے  خاص ساتھی  فواد چوہدری نے ایک انٹرویو میں کہہ دیا کہ ہمارے چونکہ فوج سے تعلقات خراب ہو چکے تھے اس لئے ہمیں گھر جانا پڑا۔یعنی اب گھر جانے کا ملبہ امریکہ کی بجائے ملٹری پر ڈالنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ لاہور کے جلسہ میں بھی عمران خان نے دھمکی لگائی اور کہا کہ جس نے بھی موجودہ غلطی کی ہے وہ اسے ٹھیک کرے اور ٹھیک کرنے کا طریقہ الیکشن ہیں اب تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ یہ دھمکی بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو لگائی گئی ہے۔حالانکہ ابھی چند روز قبل ہی فوجی ترجمان نے خاص طور پر خان کی طرف سے لفظ "سازش" کے استعمال کی تردید کی،اور کھل کر اظہار کیا ۔لیکن بدقسمتی سے اس وضاحت کا بھی تضحیک کی حد تک مذاق اڑایا گیا اورجس کے بعد سوشل میدیا پر تضحیک کرنے والوں کے خلاف ایکشن بھی لیا گیا لیکن معاملہ ابھی بھی کسی نہ کسی طرح جاری ہے۔ اس کے بعد آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے بھی واضح کیا اور نامعلوم "دشمن قوتوں" کے حوالے سے اپنے افسران کو بتاتے ہوئے کہا کہ "فوج اپنی طاقت عوام سے حاصل کرتی ہے اور فوج اور آبادی کے درمیان پھوٹ پیدا کرنے کی کسی بھی کوشش کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔"لیکن ہونا تو یہ چاہئے کہ فوج پر کیچڑ اچھالنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہئے اور اس سلسلے میں جو قوانیں موجود ہیں ان پر سختی سے عمل ہونا چاہئے ۔تجزیہ نگاراس بات کا اظہارکر رہے ہیں کہ فوج کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو ناعاقبت اندیشی ہے۔ ا دارے راتوں رات نہیں بنتے انکی تعمیر میں خاصی مشکلات جھیلنا پڑتی ہیں۔یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر فوج سیاست میںملوث ہوتی ہے تو  اس کا ذمہ دار کون ہوتا ہے بدقسمتی سے ڈان لیکس ہو، میمو کیس ہو ،یونس حبیب کیس یا پھر لاپتہ افراد کا کیس ۔ہر کیس میں فوج کو منفی کردار کے طور پر سامنے لایا جا تا رہا حتی کہ خط والے معاملے میں بھی سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی دیکھنے کو ملا۔ جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاک فوج جو ملکی سلامتی کا ضامن ادارہ ہے کو ایک سازش کے تحت بدنام کر کے تباہی کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ اس بات کو زیر بحث نہیں لایا جاتا کہ اگر فوج نے یونس حبیب کیس میں پیسے تقسم کیے تو کس کے کہنے پر ایساکیا۔ فوج از خود ایسا کررہی تھی یا پھر ان کے پیچھے کسی سیاستدان کا ہاتھ تھا۔ یونس حبیب سکینڈل کسی مارشل لا کے دور میں نہیں ہوا بلکہ سول گورنمنٹ کے دور میں ہوا ۔ اس کے پیچھے اصل ہاتھ کونسے تھے انہیں تلاش کرنے کی بجائے ہمارے ماہرین صرف فوج کو  تنقید کا نشانہ بنا تے ہیں۔ لاپتہ افراد کی بھی اصل حقیقت کوئی جاننے کو تیار نہیں اس میں بھی صرف فوج کو ہدف تنقید بنایا جاتاہے۔ جس کے لیے چند افراد کو باقاعدہ طور پر استعمال کیا جا تاہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص پاکستان دشمنی میں ملوث ہو تو کیا فوج کو اس سے تفتیش کرنے کا بھی حق حاصل نہیں یہ تو اسکے دائرہ اختیار میں آتا ہے کہ ملک کی اندرونی وبیرونی سرحدوں کی حفاظت کرے۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے فوج سے کسی بات کا بدلہ لیا جا رہا ہے۔ اگر چند جرنیلوں نے اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے ماضی میں اقتدار پر قبضہ کیا بھی تھا تو کیا اس کی سزا تمام فوج کو دی جا سکتی ہے؟ جبکہ انہی سول حکومتوں نے آمروں کے سامنے ہمیشہ سرجھکائے اور انہیں راستہ بھی دکھایا اور مدد بھی کی۔
بدقسمتی سے اس وقت سابق پی ٹی آئی حکومت بھی ایک ایسے ادارے کے خلاف مہم جوئی کرتی نظر آ رہی ہے جس کے سربراہ کو اس نے خود تین سال کی توسیع دی ۔ جس سے لگتا ہے کہ وہ یہ چاہتی ہے کہ وہ اس سے پوچھ کر اس کی مرضی سے کام کریں چاہے وہ کام کتنا ہی ملک کے لئے نقصان دہ کیوں نہ ہو ۔کیونکہ فوج اور عدلیہ کو بے اختیار رکھنا سول حکومتوں کی پرانی خواہش رہی ہے ۔لیکن اس طرح نظام نہیں چلے گا ۔پی ٹی آئی کو عقلمندی سے کام لیتے ہوئے فوج سے محاذ آرائی فوری طور پر ختم کرنی چاہئے اور اب اپنی خواہشات کی تکمیل نہ ہونے کی صورت میں ایک ادارے کو تباہ کرنے سے گریز کرنا چاہئے جو بہرحال ملکی سلامتی کا ضامن ہے۔
 سوال یہ ہے کہ فوج کے خلاف آئے روز نت نئے سکینڈل سامنے کس کے کہنے پر لائے جا تے ہیںکیا کوئی غیر ملکی طاقت تو اس کے پیچھے ملوث نہیں ہے یقینا پاکستان کے دشمن ممالک جانتے ہیں کہ پاک فوج ہمیشہ ان کے راستوں میں رکاوٹ ہوتی ہے اس لیے دشمن ممالک پاک فوج کو کنٹرول کرنے کے لئے نت نئے طریقے تلاش کرتے ہیں اوربدقسمتی سے اکثر اس میں ہمارے اپنے لوگ ہی ملوث رہے ہیں۔ 

مصنف کے بارے میں