غیرت کا جنازہ تھا بڑی دھوم سے نکلا

غیرت کا جنازہ تھا بڑی دھوم سے نکلا

دو موضوع دونوں اہم، ایک ملکی دوسرا غیر ملکی، ایک داخلی دوسرا خارجی، ایک کا تعلق قومی غیرت و شرافت سے دوسرے کا ملکی اور بین الاقوامی سیاست سے، بین الاقوامی موضوع افغان مسئلہ، اہل سیاست کا درد سر، اہل اسلام کا خیر مقدم، طالبان کو مبارکباد، اہل سیاست حالات کے کسی کروٹ بیٹھنے کے منتظر، پہلے اپنے داخلی سانحہ کا نوحہ،14 اگست یوم آزادی، ہم نے 1947ء کے کم و بیش ڈیڑھ لاکھ شہداء کو بھلا کر جشن آزادی کے طور پر منایا۔ ہلا گلا، ہلڑ بازی، اسی دن مینار پاکستان پر جہاں بر صغیر کے مسلمانوں نے 1940ء میں قائد اعظمؒ کی زیر صدارت عظیم اجتماع میں پاک وطن کے قیام کی قرار داد منظور کی تھی۔ جہاں’’ ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح ‘‘کا نغمہ گونجا تھا۔ 74 سال بعد اسی مینار پاکستان کے سائے میں مستقبل کے ’’پاسبانوں ‘‘نے غیرت کا جنازہ نکال دیا۔ ’’غیرت کا جنازہ تھا بڑی دھوم سے نکلا‘‘ داتا کی اسی نگری کے ایک شاعر فدوی لاہوری نے کہا تھا۔ ’’چل ساتھ کہ حسرت دل مرحوم سے نکلے، عاشق کا جنازہ ہے بڑی دھوم سے نکلے‘‘ ہم نے روایت برقرار رکھی جنازہ دل مرحوم کا ہو عاشق کا ہو یا غیرت کا ان دنوں دھوم دھام سے نکل رہا ہے۔ مینار پاکستان پر خدائے بزرگ و بر تر سے اظہار تشکر کے بجائے عزت، غیرت اور شرافت کی دھجیاں بکھیر دی گئیں، چہ خوب ،اتنی تبدیلیوں کے بعد یہ تبدیلی آئی؟ العیاذ باللہ ’’ ہم اتنا گر چکے ہیں اپنے معیار شرافت سے‘‘ ایک لڑکی پر 4 سو نوجوانوں کا دھاوا، کہتے شرم آتی ہے کپڑے تار تار لاہوریوں کی زبان میں ’’لیر ولیر‘‘ جسم کے ہر حصے پر انگلیوں کے نشانات ،کیمرے خاموش پولیس تماشائی، لڑکی عائشہ اکرم کون تھی کیا تھی، کیا کرنے آئی تھی، سیلفیاں لے رہی تھی یا ٹک ٹاک میں مصروف تھی اس سے غرض نہیں، یہ بھی اہل سیاست کا مسئلہ قانون نمٹے گا نمٹنا چاہیے، سٹاف نرس تھی نرس ہونا بری بات نہیں، لیکن نوجوانوں نے اس سے جو سلوک کیا وہ باعث شرم ٹھہرا، کہنا درست کہ چیونگم کے ریپر کو پھینک دیا جائے تو اس پر مکھیاں نہیں آتیں لیکن چیونگم ریپر سے نکال کر ڈال دی جائے تو مکھیاں پل پڑتی ہیں۔ یہ بھی تسلیم کہ لباس اشتعال پیدا کرتا ہے مگر ’’مسلمان مکھیوں‘‘ کو تو اپنی روایات اور اقدار کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ ابو الاثر حفیظ جالندھری مرحوم نے کہا تو تھا۔ ’’توبہ تو یہ شیخ جی توبہ کا پھر کس کو خیال، جب وہ خود کہہ دے کہ پی تھوڑی سی پی میرے لیے‘‘ مگر مرحوم نے زندگی بھر نہیں پی، آزمائش امتحان اسی کا تو نام ہے، چار پولیس افسر معطل کردیے کوئی علاج نہیں چار دن بعد پھر بحال ہوجائیں گے۔ 70 بندے پکڑ لیے کسی نہ کسی مرحلے میں رہا ہوجائیں گے۔ مگر ماحول، وطن پاک کی فضا مزید مکدر ہوتی جائے گی، چند دن بعد پھر کوئی عائشہ اکرم اسی طرح سیلفیاں لیتی اور ٹک ٹاک بناتی درندوں کا شکار ہوگی ۔کہانی پھر یہیں سے شروع ہوگی اور کسی بڑے سانحے پر ختم ہوگی۔ وطن پاک میں کیا ہو رہا ہے کیوں ہو رہا ہے؟ کوئی مغربی ایجنڈا ،کوئی یہودی سازش، قیادت صغریٰ یا کبریٰ کی علامت کہ اسلامیان پاکستان کی اخلاقی اور مذہبی اقدار تباہ کردی جائیں پہچان ختم ہوجائے کینیڈاسے بچے نے ٹیلیفون کیا کہ یہاں اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ملک دشمن پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ کینیڈا مغربی ملک جہاں ہمارے پاکستانی لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں ایک مسلمان ٹیکسی ڈرائیور کو رات کے اندھیرے میں ویران سڑک پر نشہ میں دھت واجبی لباس میں ملبوس لڑکی نظر آئی جو قریبی بار سے پی کر نکلی تھی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے ٹیکسی روکنے کو کہا پاکستانی ڈرائیور نے اسے پچھلی سیٹ پر بٹھایا گھر کا ایڈریس پوچھا اس نے اپنا کارڈ تھما دیا۔ ڈرائیور نے اسے گھر کے دروازے پر اتار کر کرایہ طلب کیا تو اس نے پرس تھما دیا پاکستانی بھائی نے پرس میں سے مطلوبہ کرایہ نکالا پرس اس کے حوالے کیا گاڑی سے باہر نکلا گھر کی بیل بجائی اس کا باپ آیا ڈرائیور نے لڑکی کو اس کے حوالے کیا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے چلا گیا۔ پاکستانی مغربی ملک میں جا کر اتنے پکے مسلمان کیسے بن جاتے ہیں؟ بیٹے نے کہا ’’ابو یہاں قوانین اور روایات اتنی سخت ہیں کہ ان سے فرار ممکن نہیں، ابتدا میں قانون کا خوف کچھ غلط کرنے نہیں دیتا بعد میں یہی خوف روایات کی پابندی کی عادت بن جاتا ہے۔ ابو کوئی جواب نہ دے سکے کیا کہتے کہ ہمارے ملک میں جسے تین سال سے ریاست مدینہ بنایا جا رہا ہے حال یہ ہے کہ ’’سڑکوں پہ ناچتی ہیں کنیزیں بتولؓ کی اور تالیاں بجاتی ہے امت رسولؐ کی۔ ثقافت اقدار اور اسلامی روایات کی تباہی پر اربوں خرچ کیے جا رہے ہیں۔ پیارے بیٹے ہم اپنے اسلاف کی روایات کو فراموش کر کے ماضی قریب و بعید کے قوانین مٹا کر ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں ہم نیا پاکستان بنا رہے ہیں۔ جہاں موٹر ویز پر خواتین کو بے عزت کرکے ہم اپنی غیرت کا جنازہ نکالتے ہیں جہاں 4 سالہ زینب سے درندگی کے مظاہرے پر شرم محسوس نہیں کرتے۔ ختمی مرتبت نبی رحمتؐ نے فرمایا تھا ’’جب تجھ میں شرم و حیا نہ رہے تو پھر جو جی چاہے کر‘‘ ہم شرم و حیا کو خیر باد کہہ چکے، روز غیرت کے جنازے ویڈیوز کی شکل میں دھوم سے نکلتے ہیں لیکن ہماری پیشانیاں عرق آلود نہیں ہوتیں، باعث شرم کہ اب تک ریپ اور درندگی کے 4700 سے زائد کیسز ہوچکے ہیں کتنے مجرموں کو سزا ہوئی؟ کتنوں نے عبرت پکڑی؟ ترغیب دینے والے بھی ہم خود ہیں۔ سزا دینے والے بھی ہم ہی ہیں۔ تبدیلی کے بعد ہی سڑکوں پارکوں پر میرا جسم میری مرضی اور ٹک ٹاکرز نے مظاہرے کیے ہیں کسی نے روکا کسی نے ٹوکا؟ والدین، اہل محلہ، اہل شہر اور پھر حکمران وقت سب بت بنے خاموش بے حس و حرکت ’’ہماری آنکھوں کا پانی مر گیا ہے‘‘ ہم صرف سیاست کرنے آئے ہیں ملک سے کرپشن ختم کرنے نکلے ہیں ایجنڈے کے مطابق چل رہے ہیں۔ جس میں خواتین کو اپنی مرضی کے مطابق سرگرمیوں کی آزادی اور نوجوانوں کو دل کی بھڑاس نکالنے کے بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ مینار پاکستان پر ہلڑ بازی کی تحقیقات کے احکامات جاری کردیے کمیٹی بنادی۔ رپورٹ آجائے ملزموں کی ایسی تیسی کردیں گے۔ ڈیڑھ ہزار رپورٹس فائلوں کے ڈھیر تلے دبی ہوئی ہیں۔ دھمکیاں روز کا معمول بے اثر ہو کر رہ گئیں۔ غیرت کے جنازے اسی دھوم دھام سے نکلتے رہیں گے۔