زمانے کی بے حسی

زمانے کی بے حسی

یہ کیسی دنیا ہے جہاں کی بیشتر آبادی سیلاب میں بہہ رہی ہے، غربت میں بہہ رہی ہے اور بچی کھچی آبادی مسائل کے چنگل سے ہی نہیں نکل پارہی جبکہ ہماری سیاست کا بھی اللہ ہی حافظ ہے، بلکہ سیاست پر تو کچھ لکھنے کو ہی دل نہیں کرتا، کیوں کہ یہاں صرف مفادات کی سیاست ہورہی ہے، یہاں صرف ذاتیات کی سیاست ہو رہی ہے، یہاں محض ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سیاست ہورہی ہے، یہاں کی سیاست غریب کا منہ چڑھا رہی ہے، یہاں کے سیاستدان سفید پوش آدمی سے اس کے منہ کا نوالہ چھین رہے ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں، خودکشیاں کر رہے ہیں، ملک چھوڑ رہے ہیں لیکن مجال ہے کسی کے سر پر جوں بھی رینگی ہو۔ گزشتہ ہفتے ایک ایسی ہی خبر میری نظر سے گزری کہ ایک باپ نے اپنی دو جواں سالہ بیٹیوں کے گلے کاٹ کر خودکشی کر لی، وجہ غریب! تفصیل بھی بتاتی چلوں کہ فیصل آباد کے ایک رہائشی عتیق الرحمن نے خود کشی سے قبل ایک خط اور ”وائس نوٹ“ اپنے دوست شاہد کو بھیجا تھا، جس میں اس نے اقرار کیا تھا کہ اس نے اپنی دونوں بیٹیوں جن کی عمریں بالترتیب 11سال اور17سال تھی چھری سے ذبح کر دیا ہے اور اس کے بعد وہ خود بھی خودکشی کر رہا ہے۔ خودکشی کرنے کی وجہ اس نے مالک مکان کو کرایہ نہ ادا کر سکنا بتائی جس کے ایک لاکھ چھیالیس ہزار روپے اس کے ذمے واجب الادا تھے اور اس کے بار بار تقاضا کرنے کے باوجود بے روزگاری کے سبب یہ رقم ادا کرنے سے قاصر رہا۔ جس کے بعد اس نے صرف خود ہی مرنے کا فیصلہ نہیں کیا بلکہ اس نے اپنی دونوں بیٹیوں کو بھی ذبح کر دیا اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ وصیت بھی کی کہ ان کی میتیں ایدھی والوں کے حوالے کر دی جائیں جہاں ان کو اجتماعی طور پر دفن کیا جائے اور اس کے گھر کا سارا سامان بھی ایدھی والوں کے حوالے کر دیا جائے 
عتیق الرحمن کی اس موت اور اس کے بیٹیوں کو ذبح کر دینے کے عمل نے لوگوں کی آنکھوں کو نم کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ اس کی موت کا ذمہ دار کون ہے 
؟ کیا وہ بیوی کی موت اور بے روزگاری کے سبب نفسیاتی مسائل کا شکار تھا ؟ اس کی مدد کر کے بچایا جا سکتا تھا ؟ اس کے مالک مکان کے رویہ نے اس کو یہ سب کرنے پر مجبور کیا ؟حالات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عتیق الرحمن ارد گرد کے لوگوں کی بے حسی کے سبب شدید تنہائی کا شکار تھا۔ وہ اکیلے خودکشی بھی کر سکتا تھا مگر وہ اپنے بعد اپنی بیٹیوں کو معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتا تھا اسی وجہ سے اس نے اپنی موت سے قبل اپنی بیٹیوں کو ذبح کیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایک باپ کے لیے بیٹیوں کو ذبح کرنا آسان کام نہیں ہوتا ہے۔ ایک عام نارمل انسان ایسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ہے عتیق الرحمن کی نفسیاتی حالت ایک دو دن میں تو نہیں ہو گی تو کیا اس کے ارد گرد کے لوگوں نے اس کی طرف سے اس حد تک آنکھیں بند کر رکھی تھیں کہ اس کو اس کی اس بدلتی ہوئی کیفیت کا پتہ تک نہ چل سکا۔ عتیق الرحمن کی موت پر آنسو بہانے والے تمام لوگوں کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ایسے بہت سارے کردار ہمارے اردگرد بکھرے پڑے ہیں جو اپنی خوداری اور سفید پوشی کے سبب کسی کے سامنے دست فریاد نہیں پھیلا سکتے ہیں۔ 
 یقین مانیں کہ یہ ایک المیہ بن چکا ہے کہ ہمارے اندر احساس ختم ہو چکا ہے، معذرت کے ساتھ ہم حقوق العباد سے زیادہ حقوق اللہ پر فوکس کرتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ سب سے پہلے سوال حقوق العباد کا کیا جائے گا۔ اور ویسے بھی عبادات ہمارے اندر عاجزی کو پروان چڑھاتی ہیں۔ اور پھر ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ” ہمسایہ تے ماں جایا “ہوتا ہے، پہلے زمانے میں یا ہمارے بزرگ ہم سے کہیں زیادہ خوش قسمت تھے، سب سے پہلے تو رشتوں کے حوالے سے کہ ایک ہی محلّے اور ایک ہی گھر میں کئی کئی نسلیں جوان ہوجاتی تھیں۔ محلّے والے رشتے داروں سے بڑھ کر حق ہمسائیگی نبھاتے تھے ”ہمسایہ ماں جایا“ ایک زندہ حقیقت تھی۔لیکن اب ایسا کچھ نہیں ہے، آج جو فیصل آباد میں واقعہ ہوا ہے، وہاں تو اتنی پوش آبادی بھی نہیں ہے، چھوٹے چھوٹے گھر ہیں جو میل جول کے ساتھ رہتے ہیں، لیکن پھر بھی اتنی بے حسی؟ اور پھرمذکورہ واقعہ تو محض ایک Demoہے، آپ یقین مانیں وطن عزیز میں 2021ءمیں 360خاندانوں نے اجتماعی، 3200افراد نے انفرادی طور پر غربت کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشی کی۔ اور پھر یہی نہیں کہا جاتا ہے کہ اگر اسلام آڑے نہ آئے یعنی ہمارے مذہب میں اگر اس کی سخت ممانعت نہ ہوتو یہ تعداد کئی سو گنا بڑھ سکتی تھی۔ 
لہٰذاہمیں ایک دوسرے کا خیال بالکل اسی طرح رکھنا چاہیے جس طرح پرانے وقتوں میں رکھا جاتا تھا، اس وقت تو غیر مذاہب کے لوگ بھی ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے، قیامت کے دن ہم سے ہمارے پڑوسی کے حوالے سے سوال اٹھایا جائے گا۔ اپنے گھروں کی دیواریں اتنی بلند نہ کریں کہ آپ تک آپ کے پڑوسی کی صدا بھی نہ پہنچ سکے۔خدا کے لیے اپنے ارد گرد میں ایسے لوگوں کو دیکھیں جو سفید پوش ہیں، مانگ نہیں سکتے، مگر وہ حقیقت میں ضرورت مند ہوتے ہیں، ایسے افراد کی خدمت ہی اصل خدمت ہے، ورنہ ہم عتیق الرحمن جیسے واقعات سے کبھی چھٹکار ا نہیں پاسکیں گے، کہ جس میں اس نے اپنی جوان بیٹیوں کے گلے اس لیے کاٹ دیے کہ وہ انہیں کچھ کھلا نہیں سکتا تھا، وہ ان بیٹیوں کو کسی کے ہاتھ میں چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ 
میں اس وقت اپنی ایک تنظیم سایہ کے نام سے چلارہی ہوں، یقین مانیں دکھ ہوتا ہے، وہاں موجود لوگوں کی سچی اور دکھی کہانیاں سن سن کر۔ سوچتی ہوں کہ انسان ساری مخلوقات میں سے منفرد اس لیے ہے کہ اس میں شعور ہے لیکن ہم انسانوں میں بھی بے شعور لوگ موجود ہیں جو اپنے ارد گرد نہیں دیکھتے، جو غریب غرباءکو نہیں دیکھتے، جو غریب رشتے داروں کی فکر نہیں کرتے۔ خدارا ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور کبھی ہاتھ نہ کھینچیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہاتھ کھینچنے والوں کے رزق سے برکت ختم کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو! (آمین)

مصنف کے بارے میں