شہباز گل :انقلاب کی مرمت تشدد کی مذمت

شہباز گل :انقلاب کی مرمت تشدد کی مذمت

سب سے پہلے شہباز گلِ کی مرمت ہونے کی مذمت کرتا ہوں کیونکہ میں امن پسند انسان ہوں اورہر طرح کے تشدد کے خلاف ہوں چہ جائیکہ کہ ایسا تشدد بھی کیا جائے جو جسمانی کے ساتھ جنسی بھی ہو۔ میرے کچھ دوستوں کی خواہش بھی ہے کہ میں اس ” ناانصافی “ پر اپنا نقطہ نظر ضرور لکھوں لیکن میرے لئے اُس وقت انتہائی عجیب و غریب صورت حال پیدا ہو گئی جب مجھے معلوم پڑا کہ پاکستان تحریک انصاف کے بہت سے قائدین اس تشدد پر دلی طور پر خوش بھی ہیں اوراسے جائز بھی سمجھتے ہیں ۔ یہ وہی لوگ ہیں جو تحریک انصاف میںرہتے ہوئے بھی عمران خان کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ایجنڈے کے ساتھ نہیں ۔ عمران خان کو چھوڑ کر جانے والوں کو لوٹا لوٹا کی آوازیں لگانے والوں کیلئے انتہائی بُری خبر ہو گی اگر کل عمران خان کے موقف پر ایک بڑا گروپ تحریک انصاف سے الگ ہو گیا جس کے اشارے ملنا شروع ہو گئے ہیں ۔ اس کیلئے انہیں ہر گز توڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ لوگ تیسرے درجے کے بزدل ہیں کہ طالبان مخالف ہونے کے باوجودکبھی کھل کر اپنی فوج کی حمایت میںنہیں بولے حالانکہ جب اپنی فوج کسی دشمن کے خلاف اعلان جنگ کردے تو شہریوں پر اپنی فوج کی حمایت فرض ہو جاتی ہے اور خاموشی مخالف کی حمایت کے مترادف سمجھی جاتی ہے لیکن عمران خان کی طالبان محبت نے تحریک انصاف میں موجود طالبان مخالف عناصر کو بھی خاموش کرا رکھا تھا لیکن اب شاید اُن کیلئے عمران نیازی نے سیکنڈ آپشن ہی نہیں چھوڑا ۔تحریک انصاف میں موجودایک بڑی تعدادکا ماضی فوجی حکمرانوں کی کاسئہ لیسی سے جڑا اُن کی پروفائل میں سب سے اوپر لکھا دیکھا جا سکتا ہے ۔ عمران خان بھیڑوں کا ریوڑ لئے بھیڑیوں کا شکار کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے ۔ اس میں کئی گھروں کے جوان چراغ بجھ سکتے ہیں لیکن یہ غیر عقلی مزاحمت پاکستان کیلئے انتہائی تکلیف دے اور ناقابلِ تلافی نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا ۔روس کے عظیم انقلابی لینن نے کہا تھا کہ مستقبل اُسی کا ہے جس کے ساتھ نوجوان ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مستقبل اُسی کا ہے جس کے ساتھ تربیت یافتہ نوجوان ہے ۔ غیر تربیت یافتہ یوتھ زمین کے کسی بھی حصے میں انارکی تو کرسکتی ہے لیکن کسی انقلاب کا ہراول دستہ نہیں ہو سکتی ۔ روسیوں ¾ چینیوں اور دنیا کے دوسرے ممالک نے ” انقلاب فرانس “ سے یہی سیکھا تھا ۔ میں نے انقلاب فرانس کو کوموں میں اس لئے لکھا ہے کہ میں نے فرانس میں ہونے والی خون ریزی اور انارکی کو کبھی انقلاب تسلیم نہیں کیا۔ 
انقلاب ایک مکمل سائنسی علم ہے جسے حاصل کیے بغیر آپ ریاست کے زیر عتاب تو آ سکتے ہیں لیکن کسی بھی کامیابی کا امکان احمقوں کی جنت یا کسی سیاسی نرگسیت کے نتیجہ میں حاصل خوش فہمی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔ماﺅ زئے تنگ کا کہنا ہے کہ ” انقلاب میں ہمیں سب سے پہلے اپنے دوستوں اور دشمنوں کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچنا ہوتی ہے۔“ ریاستی ڈھانچے اور اُس کے اداروں کی ہئیت اور طاقت کو سمجھنا پڑتا ہے۔ سماج میں موجود بالا دست طبقات اور اُن کے ریاستی گٹھ جوڑ کا تعین کیا جاتا ہے ۔ پرانے نظام کی فرسودگی اور اُس کے مکمل نا قابل عمل ہونے کی نشاندہی کرنے کے بعد نئے نظام کا ڈھانچہ عوام کے سامنے رکھنا ہوتا ہے ۔ بالا دست طبقات سماج میں 
زیر عتاب طبقات میں اپنے ایجنٹ پیدا کرکے انہیں ضرورتیں ¾ سہولتیںاور آسائشیں فراہم کرتے رہتے ہیں جس سے سماج میں چند لوگوں کے حصے میں تو کچھ آ جاتا ہے لیکن انقلاب ہرگز ہرگز یہ نہیں کہ کس کو کیا ملے گا انقلاب تو عوام کویہ بتاتا ہے کہ سب کو کیا ملے گا۔ دنیا کے کو ئی عوام انقلاب کی پیچیدہ سائنس اور فلسفے سے تعلق نہیں رکھتے یہ تو انقلابیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے بالکل اُس ماں کی طرح جو جانتی ہے کہ اُس کا بچہ کڑوی کسیلی دوا نہیں لے گا لیکن وہ یہ بھی جانتی ہے کہ یہ دوا بچے کی صحت کیلئے بہت ضروری ہے سو وہ اُسے شوگر کوٹڈ کرکے بچے کو کھلا دیتی ہے ۔ اسی طرح انقلابیوں نے بھی مشکل فلسفے اورانقلابی سائنس کو اپنے معروض کے ساتھ جوڑ کر عوام کے سامنے نئے معاشی نظام یعنی ریاست میں دولت کی تقسیم کے نئے فارمولے کو رکھنا ہوتا ہے اگر عوام اُسے قبول کرلے تو انقلاب آ جاتا ہے ورنہ ریاستی طاقت سے کم عوامی طاقت لے کر ریاست سے ٹکرانے کا مطلب حماقت اور رد انقلاب ہوتا ہے جو ایک طویل مدت تک بالادست طبقے کی اجارہ داری قائم کرا دیتا ہے۔ انقلابی بلاشبہ ایک سیانے راج کی طرح ہوتے ہیں۔ جو پرانے مکان کو ایک دم سے نہیں گراتے بلکہ اُس کی چھتیں اتارتے ہیں اور چھتیں اتارنے سے پہلے زمین کی پیمائش کرکے اُس پر بننے والی عمارت کا نقشہ بنا لیتے ہیں تاکہ نئی عمارت دیرپا ہو ۔انقلابیوں کو اپنے سماج کو انتہائی غور سے پڑھنا ہوتا ہے ۔ ا س میں موجود طبقات کی نفسیات کو سمجھنا پڑتا ہے۔اس میں موجود ذات ¾ برادریوں ¾ مذاہب اور مسالک کا تجزیہ کرنا پڑتا ہے ۔ اپنی برآمدات اور درآمدات کو دیکھنا ہوتا ہے ۔ اپنے موجودہ وسائل اورانقلاب کے بعد اُس کے استعمال کے طریقے کو سمجھنا ہوتا ہے۔ ایک مکمل سیٹ اور انٹریکشن کا نام انقلاب ہے ۔ کسی جتھے یا ہجوم کو مستقبل کا تعین کیے بغیر سٹرک پر لانا دراصل پہلے سے حکمران طبقات کی مدد کرنے کے مترادف ہوتا ہے ۔ 
عمران خان سے میری آخری ملاقات میں ¾ میں نے درخواست کی تھی کہ ہمیں 2018 ءمیں حکومت نہیں بنانی چاہیے ہمیں یہ موقع اپنے مخالفین کو دینا چاہیے ۔ 150 نشستوں کے ساتھ اپوزیشن اورخزانے کی صورت حال ہمیں مڈٹرم الیکشن بھی دے دے گی اور پہلے سے موجود تمام سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے برہنہ بھی ہو جائیں گی ۔جیسا کہ ہر اتحادکی پہلی شرط یہ ہوتی ہے اُس نے ٹوٹنا ہوتا ہے اگر تحریک انصاف کی مخالف جماعتیں یہ حکومتی اتحاد بناتیں تو اُن کا وہی انجام ہونا تھا جو تحریک انصاف کا ہوا ہے لیکن عمران خان اقتدار کی جلدی میں اُس سمت چل پڑا جہاں جانے والے یا پتھر کے ہو جاتے ہیں یا پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتے ۔ میں آج بھی عمران خان سے محبت کرتا ہوں کیونکہ میں نے اُس کے ساتھ ایک طویل سیاسی سفرکیا ہے لیکن اقتدار سب سے پہلے اندر سے چھوٹے انسانوں کو اندھا اوربہرہ کرتا ہے ۔ اُسے اپنے دوست اور دشمنوں کی پہچان نہیں رہتی ¾ جن کے نزدیک عوامی فلاح کے بڑے منصوبے ہوتے ہیں وہ کبھی مفاد پرستوں کے ساتھ نہیں چلتے ¾وہ توشہ خانوں پرہاتھ صاف کرکے اُس کے قانونی جواز نہیں ڈھونڈتے ¾ مجھے عمران خان سے ایک گلہ ضرور ہے کہ اُس نے اگر ریاست مدینہ اورخلفاءراشدین کا کردار پڑھا ہوتا تو وہ کبھی ” ریاست مدینہ “ کا لفظ اپنی سیاست کیلئے استعمال نہیں کرتا ۔جو شخص 2008 سے لے کر 10 اپریل 2021 ءتک ایجنسیوں کی معلومات اورمدد سے سب کچھ کرتا رہا اُسے صحابہ ؓ کی اُن تکالیف کا کوئی اندازہ نہیں ¾ وہ نہیں جانتا کہ ریاست مدینہ بنانے والوں کی تربیت خاتم النبیین نے کی تھی وہ ریاستی اکیڈمیو ں سے افسر شاہی کے ساتھ بیٹھ کر حکمرانی کے طریقے نہیں سیکھتے رہے ۔ شہباز گل ِ قیامت کی صبح تک افواج ِ پاکستان کے خلاف ایسا بیان نہیں دے سکتا تھا کیونکہ انسان اپنی زبان سے جو مرضی کہتا رہے وہ اندر سے کتنا بہادرہوتا ہے یہ بات اُس سے بہتر کوئی نہیں جانتا ۔ یہ ریڈی میڈ انقلابی عمران خان کے پرانے ساتھیوں کی طرح اُسے پہچاننے میں غلطی کرگیا ۔ وہ ہمیشہ اپنی غلطیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کا ماہر ہے اورمیںاُس کی وارداتوں کا 26 سالہ پرانا شہادتی ہوں لیکن رنگ بازی میں بات بڑھ گئی ہے۔ فیصل آباد خوبصورت لوگوں کا شہر ہے جہاں کوئی شخص جگت کے بغیر بات نہیں کرتا ۔ شہباز گل بیچارا نہیں جانتا تھا کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا لیکن میجرجنرل (ر)غلام عمر کا بیٹا اسد عمر ¾ ضیا الحق کے پنجاب کے گورنرمخدوم سجاد حسین قریشی کا بیٹا شاہ محمود قریشی جانتا تھا کہ اس کا انجام کیا ہو گا اور سب سے زیادہ تو چوہدری ظہور الٰہی کا بھتیجا پرویز الٰہی بھی انجام سے باخبر تھا اور جماعت اسلامی میں موجودامیر جماعت اسلامی میاں طفیل کے روحانی بیٹے تو اس اذیت اورکرب سے تو خو ب واقف تھے لیکن پھنس گیا بیچارا شہباز گل جسے شاید کسی درخت نے پیدا کیا ہے کہ ابھی تک اُس کی جعلی ماں اور جعلی بہنوں کے علاوہ کوئی سامنے نہیں آیا لیکن اس کے باجود میں اس مرمت کی مذمت کرتا ہوں ۔

مصنف کے بارے میں