”مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا“

”مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا“

میں اپنے گزشتہ کالم ” وطن واپسی“ میں عرض کررہا تھا امریکہ اورکینیڈا کے تین ماہ کے مسلسل سفر کے باعث پورا بدن تھکن سے چُورچُورہے، مسلسل سفر میں تھکن کا احساس نہیں ہوتا سفر ختم ہونے کے بعد فوراً تھکن کا ایک نیا سفر شروع ہوجاتا ہے، آج وطن واپس آئے ہوئے تقریباً ایک ہفتہ گزرگیا میں ابھی تک نارمل نہیں ہوسکا، کچھ ملک کے حالات ایسے ہیں جو مجھے نارمل نہیں ہونے دے رہے ، باہر کی دنیا اور ماحول میں کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان میں میرا انتقال ہوگیا ہو، اللہ نے میرے گناہ معاف کردیئے ہوں، اور اب میں جنت میں ہوں، پاکستان میں کچھ سیاسی واصلی حکمرانوں نے ایسے حالات پیدا کردیئے ہیں جینا مشکل مرنا آسان ہوگیا ہے، جیسا کہ شاعر نے کہا تھا ”موت سے تیرے دردمندوں کی ....مُشکل آسان ہوگئی ہوگی“ .... یہاں اپنی ساری مشکلیں آسان کرنے کا واحد حل لوگوں کے پاس اب صرف موت کی صورت میں رہ گیا ہے ....وطن واپسی کے بعد تھکن اور نیند کی کیفیت میں بے شمار دوستوں کی کالز بھی میں اٹینڈ نہیں کرپارہا میرے اخبار کے سینئر کولیگ برادرم اسد شہزاد کی کالز بھی مِس ہوگئیں، وہ بڑی محبت اور اعلیٰ ظرف والے انسان ہیں، وہ دوستوں سے جلدی ناراض نہیں ہوتے، اُن کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظرانداز کرتے ہیں، اِن ہی اوصاف کے باعث کبھی کبھی اُن کے بارے میں مجھے احساس ہوتا ہے وہ ”صحافی“ نہیں ہیں، کیونکہ ہم میں سے اکثر صحافی چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگوں سے ناراض ہوکر اپنے اندر بدلے کی نہ بجھنے والی آگ جلا لیتے ہیں، اِس آگ میں دوسرا فریق تو پتہ نہیں جلتا ہے یا نہیں، یہ آگ خود ہمیں اندر سے جلاکر راکھ بنا دیتی ہے ، ہم اپنے اندر جھانک نہیں سکتے، ورنہ اپنے اندر جگہ جگہ راکھ کے ڈھیر پڑے ہوئے ہمیں ملتے،....میں اکثر بیرون ملک جاتا ہوں میرے کچھ دوست میرے لیے ہرقسم کی ”خدمات“ انجام دینے کے لیے اصرارکرتے ہیں، اُنہیں جب یہ احساس یا یقین ہو جاتا ہے میرے شوق صرف خوبصورت مقامات کی سیروتفریح یا اچھے لوگوں سے ملنے ملانے تک محدود ہیں وہ مجھے ”دونمبرصحافی“ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں ”اصلی صحافی“ جب اُن کے پاس آتے ہیں اُن کی خواہشات اورہی طرح کی ہوتی ہیں۔ جس کا اظہار وہ ایئرپورٹ پر اُترتے ہی کردیتے ہیں، اِس حوالے سے صحافت کے دوچار بڑے نام بھی اُنہوں نے مجھے بتائے، ....یہ نام جب وہ مجھے بتارہے تھے مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ میرے ہی پیٹ سے کپڑا اُٹھا رہے ہیں، ایسے دوستوں کی خدمت میں ہمیشہ میں یہ عرض کرتا ہوں اللہ آپ کو پاکستان سے آئے ہوئے اپنے کچھ ”مہمانوں“ کے پردے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کے ”مہمانوں“ کو بھی یہ توفیق عطا فرمائے بیرون ملک جاکر مکمل طورپر ننگا ہونے گریز فرمائیں ، ....جہاں تک اسد شہزاد صاحب کا تعلق ہے ایک دوروز اُن کی کالز میں اِس لیے اٹینڈ نہیں کرسکا کہیں ”جیٹ لاک“ کی وجہ سے فون پر اُن سے بات کرتے کرتے میں خراٹے نہ بھرنے لگوں، .... جناب عطا الحق قاسمی نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا تھا، نوائے وقت کے ایک رپورٹر شاید غلام نبی بٹ ہوتے تھے، اُنہیں نیند بہت آتی تھی، وہ دفتر میں کام کرتے کرتے اکثر خراٹے بھرنے لگتے، خود تو وہ سوجاتے مگر ان کے خراٹوں کی آواز کا فائدہ یہ ہوتا پورا دفتر جاگتا رہتا،ایک بار مجیدنظامی نے اُنہیں بلایا، بڑے غصے سے وہ اُن سے کہنے لگے”بٹ صاحب آپ نے یہ کیا تماشا بنایا ہوا ہے، کام کرتے کرتے سوجاتے ہیں؟۔بٹ صاحب اُنہیں اپنی صفائیاں پیش کرنے لگے۔ کہنے لگے سر یہ سراسر غلط ہے، مجھ پر الزام ہے، میرے خلاف سازش ہے، .... یہ کہتے کہتے وہ خراٹے بھرنے لگے ....بعد میں بٹ صاحب نے نظامی صاحب کے منہ پر اُن کی تعریف کرکے اُن کا غصہ تھوڑا ٹھنڈا کیا، ....مجھے پتہ تھا اسد شہزاد نے مجھ سے کیا کہنا ہے۔ وہ یقیناً یہ اصرار کرتے بیرون ملک قیام کے دوران میں نے ایک کالم نہیں لکھا، لہٰذا میں فوری طورپر اپنا کالم بھجواﺅں۔ جب اُن سے بات ہوئی اُنہوں نے یہی کہا ”کالم میں مزید“ وقفہ ” اب برداشت نہیں کیا جائے گا“.... اُنہیں کیا معلوم ”وقفہ“ کتنا ضروری ہوتا ہے، اگر ”وقفے“ کا خیال ہم نے رکھا ہوتا 75برسوں میں جتنی پاکستان کی اب آبادی ہے اُس کا پانچواں حصہ بھی شاید نہ ہوتی، علاوہ ازیں ہمارے کچھ اینکرز اور قلم کاروں نے اپنے بولنے اور لکھنے میں کچھ ”وقفہ“ کیا ہوتا معاشرہ بداخلاقی کے اعتبار سے اتنے بدترین مقام پر شاید نہ ہوتا۔ میں ہردوچار مہینے بعد اپنے سارے کام چھوڑ چھاڑ کر بیرون ملک نکل جاتا ہوں، حضرت واصف علی واصف کا قول ہے ”آپ کا ہونا کس کام کا اگر آپ کے ہونے نہ ہونے سے کسی کو کوئی فرق ہی نہ پڑے“....میں نے کئی بار غیرحاضر ہوکر دیکھ لیا میرے ہونے نہ ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ اسدشہزاد کو اللہ جانے کیا مسئلہ ہے میں جب باہر پاکستان کی غلیظ سیاست ودیگر معاملات سے مکمل طورپر بے نیاز ہوکر اپنی زندگی انجوائے کررہا ہوتا ہوں اکثر ان کی کالز اور میسجز آتے ہیں کہ کالم بھجواﺅ....سوائے اُن کے میرے کالم کی کمی کوئی محسوس نہیں کرتا، یہ بڑی زیادتی ہے مگر شکر ہے یہ ویسی زیادتی نہیں ہے جو شہباز گل کے ساتھ آج کل ہورہی ہے، اِس زیادتی کے مطابق کہ کوئی میرے کالم کی کمی ہی محسوس نہیں کرتا مجھے نہیں لکھنا چاہیے، مگر مسئلہ یہ ہے اس کے سوا مجھے آتا کیا ہے ؟“ کروں گا کیا اگر محبت میں ہوگیا ناکام.... مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا۔ لکھنے سے مجھے محبت ہے۔ ہم اپنے چھوٹے چھوٹے خوابوں کو لفظوں میں ڈال یا ڈھال دیتے ہیں ....“ اصل زندگانی کے عکس ہی سے ڈر جائے.... خواب بھی نہ دیکھے اگر آدمی تو مرجائے .... ایک خواب ہمیں ”خان صاحب“ نے بھی دکھایا تھا۔ شاید اِسی لیے دکھایا تھا کہ ہم مرجائیں، یہ خواب جس طرح ٹوٹا ہمیں اب سمجھ ہی نہیں آرہی ہم زندہ ہیں یا مرگئے ہیں؟، کہیں ہمارے نام سے کوئی اور ہی تو زندگی بسر نہیں کررہا ؟۔ کِس نے اِس احساس میں ہمیں مبتلا کردیا ہے ”زندہ رہیں تو کیا ہے جو مرجائیں ہم تو کیا ....دنیا سے خاموشی سے گزرجائیں ہم تو کیا “....” مجھ سے پوچھتے کیا ہو زندگی کے بارے میں .... اجنبی بتائے کیا اجنبی کے بارے میں ....

مصنف کے بارے میں