ضدی بچوں کا علاج

ضدی بچوں کا علاج

کچھ زمانہ پہلے تک اکثر مغرب یا عشاء کی نماز کے بعد لوگ امام صاحب کے پاس دم درود کے لیے بیٹھ جایا کرتے تھے۔ چھوٹے موٹےدرد اور تکلیف کے لیے بس دعا ہی سے دوا کا کام لے لیا جاتا تھا۔

ایک روز ہم یونہی عصر کے بعد قاری صاحب کے پاس بیٹھ گئے کہ اپنی نظریاتی الجھنوں کا کچھ مداوا کیا جا سکے۔ مسجدوں کےخطباء سے اختلافی سوالات اُس زمانے میں بھی شدید برھمی کا سبب بنا کرتے تھے۔ قاری صاحب سے ہماری اچھی دوستی تھی،ہمارے دادا کے وہ پارٹ ٹائم خادم تھے، لہٰذا اُن سے بے دھڑک سوال پوچھنے رُک گئے۔

ابھی گفتگو شروع ہی ہوئی تھی کہ ایک عمر رسیدہ حاجی صاحب اپنے سات آٹھ برس کے پوتے کو گود میں اُٹھائے تشریف لائے اوربغیر سلام دعا کے بلند آواز سے بولے، شفیع یار مُنڈا ضدی ہو گیا بہت، کوئی دم کر اینہوں۔ قاری صاحب نے زیرِلب فٹافٹ کچھ پڑھااور دو پھونکیں مار کے حاجی صاحب کو بھیج دیا۔ پھر ہنستے ہوئے مجھے کہنے لگے، سات ساال لگا کر بچے کو بگاڑتے ہیں، پھر پانچمنٹ کا دن کروا کر چاہتے ہیں بچہ ٹھیک ہو جائے۔ بھلا خراب کرنے میں جسے کئی سال لگائے ہیں، اُسے ٹھیک کرنے میں کچھ مہینےبھی نہیں لگا سکتے!

اُس وقت قاری شفیع کی یہ بات بڑی عامیانہ لگ رہی تھی۔ آج ملک کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ قاری شفیع تو سیاسیات کے ماہرینکا بھی اُستاد تھا۔ جس ملک کو بگاڑنے میں کئی دہایاں لگائی گئی ہیں، بھلا چند مہینوں میں کیسے سُدھارا جا سکتا ہے؟

ہتھیاروں سے لیس جماعتیں بنا کر جب کئی سال تک عوام کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے، ایڈونچر کے لیے ضدی بنایا جاتا ہے، کیسےممکن کہ دم درود کر کے ایک رات میں اُنہیں واپس قومی دھارے میں ڈھالا جائے؟ دم درود کیا، گولا بارود بھی یہ کام چند دنوں میںنہیں کر سکتا۔ جب بھی کسی بچے کو سالوں کا لاڈ دے کر بگاڑا جائے گا، بچے کے ٹھیک ہونے میں طویل مدت اور کمال محنت لگےگی۔

انگریزی میں کہتے ہیں اچھا ڈاکٹر وہ ہے جو آپریشن کرنا جانتا ہے۔ بہترین ڈاکٹر وہ ہے جو یہ بھی جانتا ہے کہ آپریشن کا درست وقتکیا ہے۔ اور حقیقی معنوں میں اعلیٰ ترین ڈاکٹر وہ ہے جو اس بات کو بھی سنجھتا ہے کہ آپریشن کب نہیں کرنا ہے! یہ مقولہ بھی دنیاکے تمام ایڈمنسٹریٹیو مسائل کا حل اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔

بحیثیت اُستاد ہمیں اکثر ایسے بچوں سے سامنا ہوتا ہے کہ جن کے گھر والوں نے کئی سال کی انتھک محنت کے ساتھ اُن کی ذہنیاستطاعت اور اخلاقی اقدار کا جنازہ نکالا ہوتا ہے۔ پھر اُمید رکھتے ہیں کہ تعلیمی ادارے دم درود پھونک کر معجزانہ طور پر بچوں کیدنیا ہی بدل کے رکھ دیں گے۔ حیف، مرض گہرا ہو تو علاج طویل ہوا جاتا ہے۔ ایسے وقت میں اساتذہ کے پاس حکومت کی طرح تینراستے ہوتے ہیں:

آسان ترین راستہ یہ ہے کہ سرجری کی جائے۔ نالائق اور بد اخلاق گردانے جانے والوں کو نکال باہر پھینکا جائے کہ حالات کے تھپیڑےخود ہی اُنہیں درست راستے پر لے آئیں گے۔ نسبتًا مشکل راستہ ہے کہ تکلیف دہ انجکشن یا ڈرپ لگائی جائے۔ یعنی سزا اور جزا کاسخت معاملہ دکھا کر بچوں کو مشینوں اور جانوروں کی طرح ٹرین کیا جائے۔ اور مشکل ترین اعصاب شکن راستہ کہ ایسے بچوں کوانتہائی نگہداشت میں رکھ کر مسلسل کڑوی میٹھی دوائی پلائی جائے، دعا کا سہارا لیا جائے، اور آہستہ آہستہ محبت کے ساتھدرُست راستے کی طرف راغب کیا جائے۔ اشکال یہ ہے کہ یہ راستہ انتہائی وقت طلب ہے۔ رات سو کر صبح اُٹھنے سے معاملات درُستنہیں ہوں گے۔ طویل محبت اور استقامت سے کام لینا ہو گا۔

یہاں بعض مقتدر حلقوں اور اساتذہ کی اِس غلطی کا ذکر بھی لازم ہے کہ جس کی وجہ زبان و بیان کے تغیرات ہیں۔ وما علینا الاالبلاغ کا ترجمہ بجائے معنویت کے سطحی طور پر یوں عام ہوا کہ محاورا ہی بن گیا کہ ہمارے ذمے بس بتا دینا تھا، اصلاح کی ذمہداری ہم پر نہیں۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ و بارک وسلم کے اسوہ کا جائزہ لیا کائے تو ترجمہ یوں ہونا چاہیے کہ رزلٹکچھ بھی نکلے، آپ نے اصلاح کے لیے محنت کرتے رہنا ہے اور نتائج اور ہدایت کا حساب کتاب اللہ پر چھوڑنا ہے۔ آپ اپنے ظرف اوراپنے منہج کے مطابق استقامت کے ساتھ اپنا کام جاری رکھیں، لوگوں کے ظرف پر پریشان ہرگز نہ ہوں۔

اچھا ڈاکٹر وہ ہے جو آپریشن کرنا جانتا ہے۔ بہترین ڈاکٹر وہ ہے جو یہ بھی جانتا ہے کہ آپریشن کا درست وقت کیا ہے۔ اور حقیقی معنوں میں اعلیٰ ترین ڈاکٹر وہ ہے جو اس بات کو بھی سنجھتا ہے کہ آپریشن کب نہیں کرنا ہے! یہ مقولہ دنیا کے تمام ایڈمنسٹریٹیومسائل کا حل اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ لفظ ڈاکٹر کی جگہ اُستاد، مینیجر، حکمران، کچھ بھی استعمال کر لیجئے، آپ کو اپنے مسائلکا حل نظر آ جائے گا۔

(براہِ کرم ضدی بچوں سے مراد کسی بھی تحریک کے بانیان، اداروں کے سربراہان یا موجودہ حکمران کو نہ لیا جائے۔ شکریہ۔)

سید کوثر عباس کاظمی 

بیورو چیف نیو نیوز برطانیہ

مصنف کے بارے میں