چین نے صوبہ سنکیانگ میں نسل کشی کا الزام مسترد کردیا

China denies genocide in Xinjiang
کیپشن: فائل فوٹو

بیجنگ: چین نے اپنے صوبے سنکیانگ میں نسل کشی کا الزام سختی سے مسترد کرتے ہوئے اقوام متحدہ کو دعوت دی ہے کہ اس کے دروازے تمام دنیا کیلئے کھلے ہیں۔ چین میں بسنے والے ایغور مسلمانوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں۔

یہ اہم بیان چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔ انہوں نے یو این ہیومین رائٹس کونسل کو بتایا ہے کہ ان کا ملک انسداد دہشتگردی کیخلاف قانون کے مطابق اقدامات اٹھا رہا ہے۔ صوبہ سنکیانگ میں گزشتہ چار سالوں میں دہشتگردی کا کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا بلکہ عوام کو ترقی اور معاشرتی استحکام ملا ہے۔

وانگ ژی کا کہنا تھا کہ صوبہ سنکیناگ میں رہنے والے تمام افراد کو اپنے مذہب کے مطابق اپنی عبادات کرنے کا پورا حق دیا گیا ہے، اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں کم وبیش چوبیس ہزار مساجد قائم ہیں۔ سنکیانگ میں کبھی کسی کی نسل کشی نہیں کی گئی۔

چینی وزیر خارجہ نے صوبہ سنکیانگ میں نسل کشی کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے انھیں سراسر من گھڑت قرار دیا اور کہا کہ ان کے پیچھے بدنیتی کا عنصر شامل ہے۔

انہوں نے الزامات کی حقیقت کا خود جائزہ لینے کیلئے اقوام متحدہ کو پیشکش کی کہ وہ صوبہ سنکیانگ کا دورہ کر سکتا ہے، ہمارے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔

خیال رہے کہ چین پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ اس کی جانب سے صوبہ سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں کیساتھ انتہائی ظالمانہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے، اس اقلیت کو وہاں مذہبی آزادی نہیں، ان کی نسل کشی کی جا رہی ہے جبکہ جبراً مذہب تبدیل کرانے کیلئے انھیں کمیپوں میں رکھا جاتا ہے۔

چین نے ہمیشہ ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے انھیں جھوٹا پروپگینڈہ قرار دیا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ صوبہ سنکیانگ کے ایغور مسلمان اس کے شہری ہیں جنھیں تمام معاشرتی، معاشی اور مذہبی آزادیاں حاصل ہیں۔