پاکستان بھر میں آج کل الیکشن کا دور چل رہاہے ۔ ہر طرف بڑے بڑے پینا فلیکس اشہتارات پر عوام سے بڑے بڑے وعدوں کے ساتھ امیدوار اپنے اپنے ووٹروں کو لبھانے کی کو شش کر رہے ہیں ۔پاکستان میں ہر کسی کو ووٹ دینا قانونی طور پر لازم نہیں ہے ۔ جس کی وجہ سے ہر انتخابا ت میں ٹرن آﺅٹ ہمیشہ حوصلہ افزا نہیں ہوتا۔ جبکہ دنیا بھر میں کل 31ممالک ایسے ہیں جہاں ووٹ ڈالنا قانونی طور پر لازمی ہے ۔ ووٹ نہ ڈالنے والے کے لیے سزایا جرمانہ رکھا گیا ہے ۔ لیکن ان ممالک میں ووٹ ڈالنے والے کو یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنے علاقے میں الیکشن میں حصہ لینے والے تمام امیدواروں کو ناپسند کرتے ہوئے اگر وہ چاہے تو بیلٹ پیپر پر خالی خانے پر مہر لگا سکتاہے ۔کیونکہ ضروری نہیں کہ ہر ووٹر کو امیدواروں کی اسی فہرست میں سے چننا ہوتاہے ۔لیکن اگر ان امیدواروں میں سے کوئی بھی پسند نہیں تو ان بیلٹ پیپر کے آخری خانے کو خالی چھوڑ دیا جاتاہے ۔ جس پر لکھا ہو تاہے ’ ان میں سے کوئی نہیں ‘ ۔
تاریخی طور پر 1777 امریکن قانون کے بننے سے ٹھیک دس سے پہلے امریکی ریاست جارجیا میں لازمی ووٹ کے قانون کو حتمی شکل دی گئی تھی ۔ اور ووٹ نہ ڈالنے والے کو جرمانے کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے ۔ تاہم ووٹ نہ ڈالنے والے کو ووٹ نہ ڈالنے کی وجہ سے بھی بیان کرنے کا کہا گیا تھا ، اور اگر وجہ معقول ہوتی جیسے بیماری ، یا کوئی اور مسلہ جس کو قانون کے مطابق درست قرار دیا جائے تو اس کو جرمانا نہیں کیا جاتاتھا ۔ جرمانے کی حد5ڈالر رکھی گئی تھی ۔اسی ‘خالی خانے ‘ کی اہم شق کوووٹنگ اور بیلٹ پیپر کا حصہ بنانے کے لیے پاکستان میں ورکرز پارٹی نے 11اپریل 2012میں سپریم کورٹ میں پٹیشن فائل کی تھی ۔اس ضمن میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے پولیٹیکل پارٹیوں سے کہا کہ وہ اسکے نفاذ کے لیے تجاویز اور حل نکالیں ۔ لیکن اس کا کوئی حل نہ نکل سکااور 2013کے انتخابات پرانی روایات کے مطابق جبکہ2018کے انتخابات بھی پرانی روایات کو جاری رکھتے ہوئے ہو رہے ہیں ۔
2012کے اعدادو شمار کے مطابق الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر 84.364ملین رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن کی تعداد اس بار بڑھ چکی ہے ۔7دسمبر1970کے الیکشن کا ٹرن آﺅٹ 63فیصد رہاتھا ۔ لیکن حیران کن طور پر 19سیٹوں پر جہاں انتخاب میں کوئی حصہ نہیں لے رہاتھا کیونکہ پی این اے ( پاکستان نیشنل الائینس ) نے بلوچستان میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ وہاں پر ٹرن آﺅٹ 80 فیصد رہا تھا ۔1988کے انتخابات میں صرف 43.5فیصد رہاتھا ۔1990میں 45.5فیصد ٹرن آﺅٹ رہا تھا ۔1993میں صرف 41فیصد رہاتھا ۔1997کے انتہاںابت میں ٹرن آﺅٹ 35.2فیصد رہا۔
2002 میں ٹرن آﺅٹ تھوڑا بہت بہترہوا41.8فیصد رہاتھا ۔پھر 2008کے الیکشن میں 44فیصد رہا تھا ۔اب اس تمام اعدادوشمار کو دیکھتے ہوئے اب انداز ہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں ہونے والے تمام انتخابات میں ٹرن آﺅٹ انتہائی کم رہاہے ۔ ووٹرز کی تعداد کو دیکھتے ہوئے صرف آدھے ووٹرز ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں ۔ اس کی وجوہات کیا ہو سکتی ہے ان پر اگر نظر ڈالیں تو انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کا چناﺅ سب سے پہلے آجاتاہے ۔
بعض ووٹرز کے مطابق ان کے علاقے میں الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں میں سے کوئی بھی انہیں پسند نہیں ہوتاتو وہ کیوں بیلٹ پیپر پر کسی کو ووٹ دے کر آئیں ۔
اگر ووٹ ڈالنا لازمی کردیا جائے اور بیلٹ پیپر میں خالی کر دیا جائے تو ٹرن آوٹ بھی 80 90فیصد تک ہو جائے گا۔ جس کی وجہ سے کم از کم جیتنے والے امیدوار کے بارے میں یہ تو کہا جاسکے گا کہ انہیں علاقے کے90 فیصد ووٹرز میں سے پسند کیا ہے ۔ تاہم خالی خانے کے قانون کے مطابق اگر قانون کا اطلاق ہوتو ایسے علاقے جہاں خالی خانے کے ووٹ تمام امیدواروں سے زیادہ نکل آئیں تو ان علاقوں میں اس وقت حصہ لینے والے تمام امیدواروں کو عمر بھر انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوتی ۔کیونکہ انہیں سارے علاقے کے افراد نے مسترد کر دیا ہوتاہے ۔
بس دوسری چند وجوہات کے ساتھ یہ بھی اس قانون کی راہ میں بڑی وجہ ہے ۔ اسلیے پاکستان میں لاکھوں افراد ہر انتخابات میں اپنا ووٹ نہیں ڈالتے کیونکہ انہیں علاقے میں الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں میں سے کوئی بھی پسند نہیں ہوتا۔
اکرم شانی
(ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)