جمہوریت کہ آمریت

جمہوریت کہ آمریت

کسی بھی موضوع، معاشرت، اور طرز زندگی کو زیر بحث لانے کے لیے سیاق و سباق سے واقف ہونا ضروری ہے۔ جس طرح ہر دس میل کے بعد ایک زبان بولنے والوں کا لہجہ بدلا ہوا پایا جاتا ہے، عزت کے معیارات بھی مختلف ہوتے ہیں۔ پورے یورپ، امریکہ میں کسی گورے کا کوئی ڈیرہ نہیں، کسی کی چودھراہٹ نہیں، کسی کی مہمانداری نہیں، کسی کے سرکاری اہلکاروں سے قریبی تعلق نہیں وجہ یہ ہے کہ وہاں سسٹم نے یہ بکواسیات بھسم کر کے رکھ دی ہیں۔ آئین اور قانون کی بالادستی، بنیادی حقوق سے آگاہی اور انصاف کی فراہمی نے لوگوں میں خالص محبت اور دوستی کے علاوہ باقی زبانی کلامی راہ و رسم ختم کر کے رکھ دیا۔ وہاں سسٹم فرد کا رشتہ دار ہے، سسٹم فرد کا دوست ہے اور سسٹم ہی فرد کا محافظ ہے جس کی وجہ سے ریاست اور فرد کا رشتہ مضبوط ہے یہ مضبوط رشتہ ہی ریاست کے ریاست کہلوانے کی دلیل ہے۔ گورے نے اپنے 90 سالہ بھرپور دور میں قانون اور انفراسٹرکچر دیا، بے شک نوآبادیاتی نظام میں ہم غلامی کے دور سے گزر رہے تھے مگر عدالت اور قانون کی نظر میں سب برابر تھے۔ برصغیر میں سرکاری آفیسران، بیوروکریسی کے دفاتر اور کوٹھیاں ایکڑوں اور کنالوں میں تھے تاکہ حاکم اور محکوم کا فرق قائم رہے۔ آزادی سے پہلے جو آفیسر بھی برصغیر میں تعینات ہوتا اس کو انگلینڈ واپس جا کر کوئی ایسی ذمہ داری نہ دی جاتی جس کا تعلق عوام سے ہو بلکہ ذمہ داری دی ہی نہیں جاتی تھی کہ تم محکوموں پر حکمرانی کر کے واپس آئے ہو، غلاموں پر تعینات رہے ہو تمہارے مزاج واپس اپنی اوقات میں نہیں آ سکتے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ گورے کی جگہ ہمارے ہاں کالے حاکم آ گئے۔ اب آپ ذرا تقابلی جائزہ لیں کہ وہاں کا نظام حکمرانی یہاں کیسے کامیاب ہو سکتا ہے۔ جہاں آئین اور قانون حکمرانوں کے مزاج کے تابع اور حکمران صرف ڈنڈے کے زور پر ہوں۔ زمینی حقائق، مروجہ روایات، خطے کی تاریخ، موسم، محل وقوع اور سیاق و سباق، لوک ورثہ، مقامی ادب، ثقافت اور تہذیب سے ہٹ کر طرز زندگی و طرز حکمرانی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ بے شک دنیا آج گلوبل ویلیج کہلاتی ہے مگر پھر بھی زمینی ثقافت اور رشتے نظر انداز نہیں ہو سکتے۔ ہمارے معاشرے نے صدیوں غلامی دیکھی گورے کی غلامی کو صرف اس لیے غلامی سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں تھے جبکہ اس سے پہلے منگول و دیگر گھس بیٹھیے بھی اس دھرتی سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آزادی نہیں قانون کی حکمرانی نہیں قوت کی حکمرانی کے عادی ہیں۔ جب تک ہمارے ہاں تمام ادارے آئین کی حدود میں نہیں رہتے اور اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں جو کہ آئین پر ڈاکہ تصور ہوتا ہے یہ ڈاکہ کسی بھی ادارے کی طرف سے ہو ڈاکہ ہی ہے چاہے اسٹیبلشمنٹ ہو، عدلیہ ہو، بیورو کریسی ہو یا پارلیمنٹ کا اقدام ہو۔ بہرحال چند مثالوں سے اگر وضاحت کر پایا تو ٹھیک ورنہ کالم سمیٹا نہیں جائے گا۔
انسانوں کے مختلف مشاغل رہے ہیں اور اب بھی ہیں دیگر مشاغل کے علاوہ شکار صدیوں پرانا اور قابل ذکر مشغلہ ہے اور شکار میں شیر کا شکار تو انسانوں کے اس مشغلے میں بہت قابل فخر ہے۔ شیر کے شکار کے بعد اس کی کھال میں بھوسہ بھر کر یا خالی کھال ڈرائنگ روم میں آویزاں کر دی جاتی ہے کہ آنے والی نسلیں بتائیں کہ ہم شیر افگن رہے ہیں۔ شیر کا شکار قابل فخر ہے لیکن اگر اس شکار کے دوران انسان شیر کے پنجے یا جبڑے میں آ جائے تو یہ اس کی 
درندگی ہے۔ اگر شیر مارا جائے تو انسان کا مشغلہ اور اگر انسان مارا جائے تو شیر کی درندگی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ حال ہی میں زیادہ سال نہیں ہوئے عمران خان کی تحریک انصاف کو محترمہ بے نظیر شہید کے بعد 2011 میں جس طرح بنایا گیا عمران خان کی جماعت تحریک انصاف میں جو شامل ہوا وہ زم زم نہایا سمجھا گیا چاہے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو ہو، ایم کیو ایم (نازی) ہو، چپڑاسی کے قابل نہ سمجھا جانے والا شیخ رشید ہو، سب کے سب پوتر ہوئے اور جو عمران خان گلے میں پٹکا ڈال دیتے وہ بیعت تصور ہوتی۔ انتخابات کے بعد جہانگیر ترین کا جہاز جاتا مختلف جماعتوں اور آزاد لوگوں سے جہاز بھر بھر کر لاتے جیسے سیلاب زدگان کو بچا بچا کر لایا جا رہا ہے تو پھر سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلا کہ دوست ہو تو ترین جیسا علیم خان صاحب کے اربوں خرچ ہوئے گو کہ بدلے میں جیل دیکھی۔ ایک دن میں 39/39 بل پاس کرائے گئے۔ عمران خان نے خود کہا کہ کوئی بل پاس کرانا ہوتا تو ہمیں ایجنسیوں سے کہنا پڑتا تھا جنرل حمید گل سے لے کر جنرل باجوہ تک گود سے گود لیا گیا اور عمران خان کی حالت اس بچے کی طرح ہے جسے بڑوں کے لاڈ پیار نے بگاڑ دیا ہو۔ عمران خان اور اتحادی حکومت کی کارکردگی ملک برباد کر گئی تو ادارے اپنی عزت بحال کرنے کے لیے نیوٹرل ہو گئے۔ نیوٹرل ہونے کی دیر تھی کہ خان صاحب کی کھٹیا کھڑی ہو گئی ویسے لانے والے بچاتے رہے یہ کام تو 
بلاول اور مریم ہی کر چکے تھے، وقت بدلا اب اگر زرداری صاحب، میاں شہبازشریف، مولانا فضل الرحمن خصوصاً زرداری صاحب معاملات چلاتے ہیں تو ’’قابل مذمت‘‘ کیوں؟ جب عمران کرتا تھا تو جائز تھا، جب زرداری کرتا ہے تو ناجائز ہے۔ عمران کرے تو سیاست اور زرداری کرے تو بدعنوانی۔ عمران خان کے انویسٹرز کوئی نماز تراویح پڑھا کر پیسے تو نہیں لاتے تھے جو زرداری صاحب پہ پیسے کا بغیر ثبوت کے الزام لگایا جائے۔ شیخ رشید شرقپوری کو پیسے دینے کی آڈیو تو پوری دنیا نے سنی۔ انسانی ارتقا میں تربیت کی بہت ضرورت ہے ورنہ ایسے ہی ہے گدھا گاڑی چلانے والے کی چند ایکڑ زمین رہائشی سکیم میں آ گئی وہ لینڈ کروزر میں بیٹھ گیا، گدھا گاڑی سے لینڈ کروز کا سفر درمیان میں کوئی ارتقائی مرحلہ نہیں آیا وہ لینڈ کروزر میں بیٹھ کر رویہ گدھا گاڑی کا ہی رکھے گا اور باقی ٹریفک بے ہنگم ہو جائے گی۔ لہٰذا ہمارے ہاں جمہوری تربیت اور انسان سازی کا سرے سے تصور ہی کسی جماعت میں نہیں ہے۔ گویا غلامی سے جمہوریت کا سفر، اس دوران بار بار آمریت اور جمہوریت کے دوران بھی آمریت اور جمہوریت کے میدان بھی طاقت وروں کے گیٹ پر منظور نظر ہونے کے لیے دستک دینا کوئی جمہوریت نہیں لہٰذا کوئی فرق نہیں جمہوریت ہو کہ آمریت۔ جب یہ کالم چھپ چکا ہو گا پتہ نہیں فیصلہ حمزہ شہباز کے حق میں آتا ہے کہ پرویز الٰہی کے حق میں، مگر دنیا میں ایسے ماورائے قانون، ماورائے آئین، ماورائے اخلاقات اور جمہوریت الیکشن کی مثال نہیں ملتی۔
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
اپنا حلقہ ہے حلقۂ زنجیر
اور حلقے ہیں سب امیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
وہی اہل وفا کی صورت حال
وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے
سازشیں ہیں وہی خلاف عوام
مشورے ہیں وہی مشیروں کے
بیڑیاں سامراج کی ہیں وہی
وہی دن رات ہیں اسیروں کے