زیو۔ناچنا۔۔

Ali Imran Junior, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

دوستو، گزشتہ دنوں ایک خبر جو آپ لوگوں نے بھی پڑھی ہوگی کہ۔۔دو یا چار نہیں بلکہ 38 بیویوں اور 89 بچوں پر مشتمل دنیا کے ’سب سے بڑے خاندان‘ کے سربراہ زیونا چنا انتقال کرگئے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق زیونا چنا کا تعلق بھارتی ریاست میزورام سے تھا۔ان سے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ ہائی بلڈ پریشر اور شوگر کے مرض میں مبتلا تھے۔خیال رہے زیونا چنا اپنے خاندان کے سائز کی وجہ سے دنیا میں مشہور ہوگئے تھے، ان کی عمر 76 سال تھی۔۔یہ تو تھی خبر، اب ذرا آپ کچھ دیر کے لئے صرف اتنا سوچیں کہ اگر پچھلی امتوں کی طرح انسان طویل العمر ہوتے تو ”زیوناچنا“ محکمہ بہبود آبادی والوں کو تگنی کا ناچ نچا دیتا۔۔
ابھی ہم ”زیوناچنا“ کی کم عمری اور اتنی جلدی چلے جانے سے متعلق سوچ ہی رہے تھے کہ امریکی جریدے ”سائنٹیفک امریکن“ میں یہ نیوز پڑھ لی کہ۔۔محققین نے دعویٰ کیا ہے کہ انسان 150سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔طویل عمری کی حد کی پیش گوئی میں خون کے خلیوں اور یومیہ اٹھتے قدموں کا شمار پر منحصر ہے۔امریکی جریدے کے مطابق ہلاکت خیز عوامل کو زندگی سے نکال دیا جائے توہم طویل عمری پاسکتے ہیں یعنی ہم اس وقت تک زندہ رہ سکتے ہیں جب تک خوش قسمتی کے واقعات اور جینیات کے امتزاج سے ہم کینسر، دل کی بیماری یا کسی حادثے سے نہیں مرتے۔محققین کے مطابق متناسب ڈھانچے اور میٹابولک نظام میں توازن بحال کرنے کی جسمانی صلاحیت وقت کیساتھ سرد پڑ جاتی ہے۔ لہٰذا زندگی میں کچھ دباؤ میں کمی کرنے سے عمرکے دورانیے کو 120 سے 150سال تک پھیلاسکتے ہیں۔یہ تحقیق طبی جریدے نیچر میں شائع ہوئی۔اس مطالعے کے لئے تحقیق دانوں نے امریکہ، برطانیہ، اور روس کے تین گروپوں میں عمر رسیدگی کو دیکھا۔ مستحکم صحت سے انحرافات کا جائزہ لیتے ہوئے، انہوں نے خون کے خلیوں کی گنتی میں تبدیلیوں اور یومیہ جتنے وہ قدم اٹھاتے ہیں کا شمارکرتے ہوئے عمر کے لحاظ سے ان کا تجزیہ کیا۔مطالعے کے مطابق اگر واضح خطرات ہماری جانوں کو نہیں لیتے ہیں تو مشکلات سے نکلنے کی صلاحیت میں کمی ہماری جانوں کو لے بیٹھتی ہے۔رپورٹ کے آغاز میں کہا گیا کہ فلم ’فیم‘ میں اداکارہ آئرین کارا پر فلمائے گئے گیت کے یہ بول”میں ہمیشہ زندہ رہوں گی“ کا مقصد لمبی عمر نہیں بلکہ مرنے کے بعد شہرت تھا تاہم طویل عمری کئی گوشوں خاص کر ٹیکنالوجی سیکٹر میں بھی دلچسپی کا محور رہا۔ سلی کون ویلی میں،لافانیت موضوع اکثر زیر بحث رہا ہے۔جیسے کسی اسمارٹ فون کے آپریٹنگ سسٹم کو اپ گریڈ کرنا ہو، ایسے ہی ٹیکنالوجی کے بڑے ناموں نے موت کے مسئلے کو حل کرنے کے منصوبوں میں بھاری سرمایہ کاری کی جو ڈوب گئی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر موت کے سامنے بند نہیں باندھا جاسکتا تو طویل عمری کی حد تو ہوگی۔ڈیوک یونیورسٹی سنٹر کی ڈائریکٹر ہیدر وہٹسن جو اس تحقیق کا حصہ ہیں ان کا کہنا ہے سوال یہ کہ زیادہ سے زیادہ طویل العمری کیا ہے جو کسی انسانی پیچیدہ نظام کے ذریعے گزر سکتی ہے، اگر سب کچھ واقعتاً ٹھیک اور تناؤ سے پاک ماحول ہو۔ مطالعے کے نتائج بنیادی طور پر عمر بڑھنے کی رفتار کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو زندگی کی حدود کو طے کرتے ہیں۔عمر بڑھنے کے ساتھ بلڈ سیل اور قدموں کا شمار ایک جیسا تھا۔ بیماری سے ماورا کچھ عوامل مشکلات کے عمل کے بعد جسم میں خون کے خلیوں کو واپس لانے یا قدموں کو مستحکم سطح پر لانے میں کمی پیش گوئی کی طرف لے جاتے ہیں۔ جب محققین ماسکو، بفیلو اور نیویارک میں تھے تو انہیں معلوم ہواکہ اگر ان تمام رکاوٹوں کو ختم کیا جائے جو موت کا سبب بنتی ہیں تو انہیں 120 سے 150 سال کی حد معلوم ہوجائے گی۔۔ 1997 میں جین کالمنٹ کی ریکارڈ طویل عمر ہے جو فرانس میں 122 سال کی عمر میں انتقال کر گیا۔محققین کے مطابق عمر کے ساتھ، توہین یا بے عزتی پر ردعمل مستحکم معمول سے تیزی سے دور لے جاتا ہے، جس کی بحالی میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ وہٹسن کہتی ہے کہ ایک صحتمند نوجوان تیزی سے جسمانی ردعمل پیدا کرسکتا ہے لیکن ایک بوڑھے شخص میں ہر عمل سست روی کا شکار ہوجاتا ہے اور وہ جواب دینے میں قدرے سستی دکھائی دیتے ہیں۔بلڈ پریشر اور بلڈ سیل کے شمار کی ایک صحت مند رینج ہے، تاہم قدموں کی گنتی انتہائی ذاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پیرکوف اور اس کے ساتھیوں نے متغیرات کا انتخاب کیا جو خون کے حساب سے بہت مختلف ہے۔مصنفین نے معاشرتی عوامل کی طرف بھی اشارہ کیا،35 سے 40 سال کی عمر میں کا دورانیہ اکثر ایسا ہوتا ہے جب کسی کھلاڑی کا کیریئر ختم ہوجاتا ہے یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اس عمر میں جسمانی خدوخال میں واقعی کچھ تبدیلی ہوسکتی ہے۔
انسان کائنات کے راز کھوجتا رہے گا، ابدیت کے رازوں کو کھولنے کی خواہش اس وقت تک جاری رہے گی جب تک انسانوں کی موت سے آگاہی نہیں۔باباجی فرماتے ہیں کہ انسانی جسم میں گردے جیسا نالائق کوئی نہیں،جب بھی سنا یہی سنا کہ گردہ فیل ہوگیا۔۔کبھی پاس ہونے کی خبر آئی نہیں۔۔ایک ریسرچ کے مطابق دنیا  کی سب سے نایاب ادویات پاکستان کی بسوں میں فروخت کی جاتی ہیں اور ملاوٹ کا یہ عالم ہے کہ باباجی بتارہے تھے کہ وہ گزشتہ ہفتے کیڑے مار اسپرے لائے تھے، اسی میں کیڑے پڑ گئے۔۔کائنات کے رازوں میں سے ایک راز یہ بھی ہے کہ مرد و خواتین کی ”پروگرامنگ“ بالکل مختلف ہوتی ہے، مثال کے طور پرمرد ہمیشہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں جبکہ عورت دونوں کانوں سے سن کر منہ سے نکالتی ہے۔۔باباجی فرماتے ہیں کہ۔۔محبوب کو اگر دل میں رکھنے کی بجائے اوقات میں رکھا جائے تو بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔۔ہمارے پیارے دوست ہسپتال کے بیڈ پر جوتے اتار کر لیٹے اور ہمیں مخاطب کرکے کہنے لگے۔۔میرے جوتے کا خیال رکھنا۔۔ہم نے مسکرا کر کہا۔۔بھائی جی یہ ہسپتال ہے، مسجد نہیں۔۔یہاں جوتے نہیں گردے چوری ہوتے ہیں۔۔ایک بار ہم نے باباجی سے خالص گُڑ کی پہچان کے بارے میں سوال کردیا۔۔وہ فرمانے لگے۔۔گُڑ والی چائے بنائیں اگر اُس میں کیڑوں کے اسپیئر پارٹس تیرتے پھرتے ہوں تو سمجھ جائیں گڑ خالص ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔زمانہ ترقی کرگیا،مگر مکھی، مچھر اور چوہے اب بھی پیداہوتے ہیں، جراثیم کش دوائیں نئے جرثومے پالتی ہیں، جیسے جیسے سائنس ترقی کررہی ہے،بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔۔انسان کل بھی دکھی تھا،آج بھی سکھی نہیں۔ علاج تو خالق کے قْرب میں ہے۔ لوگ سمجھتے نہیں۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔