"پنڈی کی توپی رکھ "… کچھ مزید تذکرہ !

"پنڈی کی توپی رکھ " کے عنوان سے کالم چھپا تو کئی کرم فرمائوں نے اپنی پسندیدگی کے ساتھ اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ اس طرح کے اور موضوعات پر بھی لکھا جائے کہ اس سے معلومات میں اضافہ ہی نہیں ہوتا بلکہ دلچسپی کے کئی نئے پہلو بھی سامنے آتے ہیں۔ میں اپنے کرم فرماوں کا ممنون ہوں کہ میری ان حقیر کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ میں یہاں خاص طور پر اپنے محدود حلقہ احباب کے دو قابل قدر ساتھیوں عزیزی ڈاکٹر ندیم اکرام اور محب مکرم فواد حسن فواد جو سکول کی کلاسز میں میرے شاگرد بھی رہے ہیں کی اس کالم کے بارے میں تبصرہ آرائی کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ عزیزی مکرم ڈاکٹر ندیم اکرام نے اپنے Whatsappپیغام میں لکھا ہے "راولپنڈی کے حوالے سے آپ کی تحریریں بہت لطف دے رہی ہیں۔ اس سے پہلے عزیز ملک صاحب نے "راولپنڈی دیس" کے حوالے سے کتاب لکھی۔ اس میں شہر کا ذکر زیادہ ہے۔ رشید نثار صاحب پنڈی کی تاریخ کا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ انھوں نے ایک مختصر کتاب "بری کا بالکا"لکھی تھی۔ وہ خود ایک عمر میں بری امام کے بالکے رہے تھے اور کانوں میں مندری ڈالتے تھے۔ عزیز گرامی فواد حسن فواد نے کچھ ان الفاظ میں اپنی یادوں کو تازہ کیا ہے "بہت یادیں تازہ ہوئیں ،توپی رکھ میں میرے ایک عزیز دوست ملک منصور کا گھر تھا، جہاں جوانی کا بہت وقت گزرا۔ بد قسمتی سے وہ جلدی اللہ کریم کے پاس واپس چلا گیا۔ آج اس کی یاد بھی تازہ ہوگئی ،خوب صورت تحریر ۔" محترم ڈاکٹر جمال ناصر بھی میرے ان احباب میں شامل ہیں جو میری اس طرح کی تحریروں کی شروع سے تحسین کرتے چلے آرہے ہیں۔ میں ان سب کا مشکور و ممنوں ہوں۔
یہاں مشہور ادبی اور سماجی شخصیت ، معروف شاعر ، قلم کار اور مصنف جناب جبار مرزا کا بھی حوالہ دینا چاہوں گا جنھوں نے فون پر براہ راست میرے اس کالم کے حوالے سے جو خیال آرائی کی وہ بھی بڑی دلچسپی کا باعث اور میری معلومات میں بڑا اضافہ ہے۔ جناب جبار مرزا صاحب کاکہنا ہے کہ" توپی رکھ "نہیں، "ٹوپی رکھ "اور اس کی وجہ تسمیہ انہوں نے یہ بتائی کہ رکھ جنگل وغیرہ ہوتے تھے ان میں ڈاکو لٹیرے بھی بسیرا کیے رکھتے تھے ادھر سے جو راہ  چلتے مسافر وہ ان کو روک کر لوٹ لیا کرتے تھے۔ اکثر ایسے ہوتا کہ ادھر سے گزرنے والوں کی جیبیں خالی ہوتیں ، اس پر ڈاکو لٹیرے وغیرہ غصے سے یہ تقاضا ضرور کرتے کہ "ٹوپی رکھ"، مطلب یہ کہ تم سے اور کچھ نہیں ملا تو تم نے جو ٹوپی پہن رکھی ہے وہ یہیں رکھ دو۔ "پنڈی کی توپی رکھ " کی جگہ "ٹوپی رکھ"والاجناب جبار مرزا کا استدال ہے بڑا دلچسپ اور اپنے اند ر وزن بھی رکھتا ہے لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ پوٹھوہار کے اس علاقے میں جتنے بھی سرکاری جنگل ہوتے تھے انہیں "رکھ "یا "رکھیں"ہی کہتے تھے یا کہتے ہیں۔ جیسے میں نے پچھلے کالم میں اپنے گائوں کی تین "رکھوں"کا ذکر کیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی راولپنڈی کے جنوب میں بڑی معروف "رکھیں "تھیں جن میں سے ایک 
دھمیال گائوں کے جنوب یا کسی حد تک جنوب مشرق اور اڈیالہ روڈ کے مغرب میں محکمہ جنگلات پنجاب کی ملکیت "دھمیال رکھ" تھی /ہے۔ جہاں پنجاب ایمپلائیز ہائوسنگ فاونڈیشن کے تحت ایک وسیع رقبے کو Developکرکے بڑی تعداد میں رہائشی پلاٹ بنا کر سرکاری ملازمین کو الاٹ کیے گئے ہیں۔ 
"رکھ"یا "رکھوں"کی بات چلی ہے تو مجھے راولپنڈی کے جنوب اور جنوب مغرب میں کم و بیش 25، 30کلومیٹر کے فاصلے پر چکری روڈاور اڈیالہ روڈ کے درمیان اونچے نیچے ٹبوں ، ٹیلوں ، چٹانوں ، کسیوںاور برساتی پانی کی گزرگاہوں پر مشتمل وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی ایک "رکھ"کا خیال آرہا ہے جو" ٹنگی/ ٹونگی رکھ"  کے نام سے موسوم تھی اور اس میں پھلائیوں اور کیکر(زیادہ تر پھلائیوں ) کے سخت تنے اور کانٹے دار ٹہنیوں والے درختوں کے ساتھ خود رو کانٹے دار جھاڑیاں بھی بکثرت موجود تھیں۔ یہ "رکھ"بڑے عرصہ تک محکمہ جنگلات کی تحویل میں رہی اور میرے رشتے کے ایک ماموں (ملک غلام مرشد مرحوم) بطور داروغہ محکمہ جنگل اس "رکھ"کی نگرانی پر مامور رہے۔ یہاں کچھ اور "رکھ "یا "رکھوں"کے نام لیے جا سکتے ہیں لیکن " توپی رکھ " یا "ٹوپی رکھ " کے تذکرے کی طرف واپس آتے ہیں۔ 
میں سمجھتا ہوں "توپی رکھ" کے حوالے سے کچھ بنیادی باتیں پچھلے کالم میں لکھنے سے رہ گئی تھیں ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایوب نیشنل پارک (توپی رکھ) کے مغربی سرے پر جی ٹی روڈ پر جہاں 18ہولز پر مشتمل راولپنڈی گالف کلب کے سبزہ زار شروع ہوتے ہیں وہاں پہلے پرانی طرز کی ایک بڑی سی عمارت بھی ہوا کرتی تھی جو سٹیٹ گیسٹ ہائوس نمبر ۲ کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔ میں یہ ذکر پچھلی صدی کے 60کی دہائی کے ابتدائی برسوں کا کر رہا ہوں۔ اس زمانے میں سٹیٹ گیسٹ ہائوس نمبر ۱ "شہزادہ کوٹھی"تھی۔ "شہزادہ کوٹھی"اب کچہری چوک کے مغرب اور شمال مغرب میں واقع فاطمہ جناح وومن یونیورسٹی کے تصرف میں ہے۔ پچھلی صدی کی ستر کی دہائی میں 14اگست 1973کو پیپلز پارٹی کے چیئرمین مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے صدرپاکستان کے بجائے وزیر اعظم پاکستان کا منصب سنبھالا تو شہزادہ کوٹھی کو سٹیٹ گیسٹ ہائوس کے بجائے پریزیڈنسی کا نام دے دیا گیا اور یہ اس وقت کے صدر مملکت چودھری فضل الٰہی مرحوم کی سرکاری رہائش گاہ قرار پائی۔ 
"توپی رکھ"کا ذکر اس کے شمال میں اس کے اندر واقع ایک تاریخی عمارت اور اس کے بالمقابل سڑک کے پار مشروبات کے ایک معروف کارخانے "بیوریجز" کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جا سکتا۔ تاریخی عمارت جس کا حوالہ دیا گیا ہے وہ ایک زمانے میں پاکستانی فوج کے کمانڈر اینڈ چیف کی سرکاری رہائش گاہ یا سی این سی ہائوس ہوا کرتی تھی۔بیچ میں 15، 20سال کو چھوڑ کر تقریباً پچھلے دو عشروں سے یہ عمارت پھر چیف آف آرمی سٹاف کی سرکاری رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ جنرل ایوب خان فوج کے کمانڈر اینڈ چیف کی حیثیت سے پنڈی میں اسی رہائش گاہ میں رہتے تھے۔ بعد میں انھوں نے ملک میں مارشل لاء لگا کر صدر مملکت کا عہدہ سنبھالا اور پچھلی صدی کی 60کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں کراچی کے بجائے اسلام آباد کو پاکستان کا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ ہوا اور اسلام آباد میں وفاقی حکومت کے دفاتر کے لیے ضروری سرکاری عمارات کی تعمیر تک راولپنڈی کو پاکستان کے عبوری دارالحکومت کا درجہ ملا رہا تو جنرل ایوب خان بطور صدر مملکت اسی عمارت میں مقیم رہے۔ مارچ 1969میں کمانڈ راینڈ چیف جنرل آغا یحییٰ خان نے عنان حکومت سنبھالی تو یہ عمارت ان کی رہائش گاہ بن گئی۔ آغا یحییٰ خان کی حکومت ختم ہوئی اور ذوالفقار علی بھٹو پہلے صدر مملکت و چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر اقتدار کے مالک بنے تو یہ عمارت بطور ایوان صدر ان کے زیر استعمال رہی۔ اگست 1973میں بھٹو صدر مملکت کے بجائے وزیر اعظم پاکستان بن گئے تو اس عمارت کو وزیراعظم ہائوس کا درجہ مل گیا اور بھٹو معہ اپنے اہل و عیال اس عمارت میں قیام پذیر رہے۔ 5جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے نتیجے میں بھٹو کی حکومت ختم ہوئی تو ان کو یہیں سے حفاظتی تحویل میں لے کر مری پہنچایا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران یہ عمارت ان کی رہائش گاہ کے بجائے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر سیکرٹیریٹ کے طور پر زیر استعمال رہی۔ نومبر 1988میں محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو انھوں نے اس عمارت کو اپنی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے سندھ ہائوس اسلام آباد میں رہنے کو ترجیح دی۔ اس طرح یہ عمارت ایک بار پھر فوج کے کمانڈر اینڈچیف (چیف آف آرمی سٹاف) کی رہائش گاہ قرار پائی۔اس وقت سے یہ عمارت آرمی چیف کی سرکاری رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ 2004میں جب سابق صدر و چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کے صدارتی قافلے کی گاڑیوں کو جھنڈا چیچی کے قریب ایک خودکش بمبار نے اپنی بارود سے بھری سوزوکی مہران گاڑی سے نشانہ بنایا اور جنرل مشرف کی بلٹ پروف صدارتی گاڑی کے ٹائر پھٹ گئے تو ان کا ڈرائیور بڑی چابک دستی ، مہارت اور تیزی سے بغیر ٹائروں کے محض ریموں پر گاڑی چلاتے ہوئے جنرل مشرف کو اسی رہائش گاہ تک پہنچانے میں کامیاب رہا۔ 
آرمی چیف کی یہ رہائش گا ہ جو ایوب نیشنل پارک (توپی رکھ) کے شمالی حصے میں واقع ہے اس کے بالمقابل سڑک کے پار مری بروری (ٹاپس فوڈ) کے نام سے مشروبات بنانے کا ایک بڑا کارخانہ قائم ہے۔ معروف پارسی خاندان کی ملکیت یہ کارخانہ پچھلی صدی کے ابتدائی برسوں سے یہاں قائم چلا آرہا ہے جہاں ایک زمانے میں کئی طرح کی شرابیں اور بیئر وغیرہ بھی بنتی تھی۔تو اب TOPSکے نام سے پھلوں کے جوسز، سکوائش، جام، کیچپ اور چٹنیاں وغیرہ اور جو کا مشروب MALT46وغیرہ بنتے ہیں۔توپی یا ٹوپی رکھ کے حوالے سے یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اسے یہ نام یہاں پرانے زمانے میں آباداسی نام کی  ایک بستی کی وجہ سے ملا ہوا ہے۔

مصنف کے بارے میں