جو جھوٹ جہاں فٹ بیٹھے

جو جھوٹ جہاں فٹ بیٹھے

دو چار سال کی بات نہیں بلکہ عشروں تک اصرار رہا اور شدید اصرار رہا کہ سیاستدانوں کو کرپٹ مان لو نہ صرف یہ کہ کرپٹ مان لو بلکہ دنیا کی جس قدر برائیاں ان کے کھاتے میں ڈال سکتے ہو وہ بھی ڈال دو ۔ کوئی ثبوت ہے یا نہیں ہے اس سے عام کمیں کمین عوام کو کوئی مطلب نہیں ہونا چاہئے عدالتوں سے کسی کو کوئی سزا ہوئی ہے یا نہیں وہ ہم جانے اور ہمارا کام لیکن جب کہہ دیا کہ سیاستدان کرپٹ ہیں تو اچھے بچوں کی طرح انھیں کرپٹ مان لو اسی میں تمہاری بھلائی ہے ۔ کرپشن بیانیہ کی تاریخ بڑی پرانی ہے یہ قیام پاکستان کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا اور جب ایوب خان نے اقتدار سنبھالا تو تحریک پاکستان میں شامل جدوجہد آزادی میں شریک پوری قیادت کو ایبڈو ایسے کالے قانون کے ذریعے نا اہل قرار دے کر گھر بٹھا دیا تھا یہ بیانیہ مارکیٹ میں انتہائی مہنگے داموں ہاتھوں ہاتھ بکتا رہا لیکن پھر مسئلہ یہ ہوا کہ صادق اور امین کی حکومت آ گئی کہ جس کے دل و دماغ میں فٹ کرنے والوں نے ایک ہی کیسٹ فٹ کر رکھی تھی یا اس میں مینو فیکچرنگ فالٹ تھا کہ کرپشن بیانیہ کے سوا اس کی زبان سے کوئی دوسری آواز نہیں نکلتی تھی اور اب دوسروں کے دور میں اگر کسی پر کچھ ثابت نہیں ہوا وہ تو مک مکا تھا لیکن صادق اور امین کے تین سال اور آٹھ ماہ کے دور احتساب میں جب جیلوں میں رکھنے کے باوجود بھی کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا اور پابند سلاسل سیاسی مخالفین کو عدالتوں نے ضمانتوں پر رہا کر دیا تو اسی وقت انداز ہ ہو گیا تھا کہ اب کرپشن بیانیہ کا جادو نہیں چلے گا بلکہ اب تو حالت یہ ہے کہ یہ جادو پلٹ کر وار کرنے کو تیار ہے تو اس کے بعد ایک نئے بیانیہ کا جنم ہوا کہ سازش ہوئی ہے ۔ اس بیانیہ کا حال بھی کرپشن بیانیہ سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے ۔ کرپشن بیانیہ میں بھی اصرار تھا کہ کچھ ثابت ہوتا ہے یا نہیں لیکن جسے کرپٹ کہا جائے اسے کرپٹ مان لو اور اب سازشی بیانیہ میں بھی اصرار ہے کہ کوئی کچھ کہہ لے لیکن جو کہا جا رہا ہے اسے اندھی تقلید کے تابع مان لو کہ جو بھی عمران خان کے خلاف ہے اس نے ملک کے خلاف سازش کی ہے ۔
ہم نے اندھی تقلید کااس لئے کہا کہ خود خان صاحب کی وزارت عظمیٰ میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں اگر کسی کا خیال ہے کہ خان 
صاحب نے کوشش نہیں کی ہو گی کہ اس اجلاس کے اعلامیہ میں سازشی تھیوری کو منوایا جائے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے لیکن اس اعلامیہ میں کسی سازشی تھیوری کا ذکر تک نہیں تھا ۔مداخلت کا ذکر تھا اور یہ ایسی ہی مداخلت تھی کہ جیسے پاکستان کا دفتر خارجہ بیان دیتا ہے کہ ہندوستان مسلمانوں پر ظلم بند کرے تو ہندوستان کی طرف سے فوری رد عمل آتا ہے کہ یہ ان کے معاملات میں مداخلت ہے حتیٰ کہ اسی طرح بسا اوقات مختلف ممالک اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی اپنے ملکی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہیں لیکن ظاہر ہے سازش ایک بالکل ہی الگ بات ہو جاتی ہے لیکن نہیں خان صاحب نے ایک کاغذ لہرا کر کہہ دیا کہ سازش ہے تو ان کا اور ان کے فین کلب کا اصرار ہے کہ پورا ملک مان لے کہ سازش ہوئی ہے ۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک مرتبہ اپنی پریس بریفنگ میں سوال کے جواب میں واضح کیا کہ سازش نہیں ہوئی لیکن پھر بھی سازش کا الاپ جاری رہا پھر ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک ٹی وی انٹر ویو میں سوال پوچھنے پر کہا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی ۔ اس پر بجائے اس کے کہ سازشی بیانیہ سے پیچھے ہٹا جاتالیکن اس کے برعکس الٹا ڈی جی آئی ایس پی آر پر برس پڑے کہ آپ سیاسی معاملات پر بیان دینے سے گریز کریں ۔مطلب یہ کہ جو جھوٹ جہاں فٹ بیٹھتا ہے وہ ہمیں کیوں نہیں بولنے دیتے ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے وضاحت بھی کی کہ یہ سیاسی بیان نہیں بلکہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر رائے ہے لیکن اس کے باوجود بھی ڈھٹائی سے کہا کہ یہ مداخلت ہے یا سازش یہ طے کرنا تو انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کام ہے ۔ حالانکہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے وضاحت کر دی کہ ان کی رائے انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہے لیکن ہم بحث سے بچنے کے لئے تحریک انصاف کے موقف کو مان لیتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے پاس وہ کون سی انٹیلی جنس ایجنسیاں ہیں یا ذرائع ہیں کہ جنھوں نے مکمل تحقیقات کے بعد ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ خان صاحب کو اطلاع دی کہ یہ سازش ہے ۔ ہم مان لیں گے کہ یہ سازش ہے لیکن خان صاحب کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے انھیں سازش کے حوالے سے جو ناقابل تردید ٹھوس ثبوت دیئے ہیں وہ تو قوم کے سامنے لائیں ورنہ تو جہاں تک خان صاحب کے کہنے کی باتیں ہیں تو انھوں نے آج تک سچ بات کہی کب ہے انھوں نے تو چالیس روپے لیٹر پیٹرول بھی قوم کو دینا تھا انھوں نے تو قرض بھی نہیں لینا تھا انھوں نے تو پی ایم اور وزیر اعلیٰ ہائوسز میں یونیورسٹیز بھی بنانا تھی اور بھی پتا نہیں کیا کیا کرنا تھا۔ ان کا تو وتیرہ یہی رہا ہے اور صرف ان کا نہیں بلکہ ان کی پوری جماعت کا یہی طریقہ رہا ہے کہ جو جھوٹ جہاں فٹ بیٹھے وہ بول دو تو سازشی تھیوری کا کوئی ثبوت تو دیں پھر اس پر بات بھی ہو لیکن جب ثبوت ٹکے کا نہیں بلکہ صرف باتیں ہی باتیں ہیں تو کیا صرف باتوں پر ملک کی پوری سیاسی قیادت کو غدار مان لیں ۔
خان صاحب نے اتوار کے روز رات نو بجے مہنگائی کے خلاف احتجاج کی کال دی تھی ۔ در اصل خان صاحب مارکیٹ کا بھائو دیکھنا چاہتے تھے کہ ان کی کال پر کتنے لوگ سڑکوں پر آتے ہیں ۔ غور کریں کہ وہ جب احتجاج کی کال دیتے ہیں تو صرف تحریک انصاف کے کارکنوں کو کال نہیں دیتے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ تمام پاکستانی اس میں حصہ لیں ۔ مقصد ان کا یہ تھا کہ مہنگائی سے تنگ عوام اب تو ان کے کہنے پر گھروں سے باہر نکلیں گے اور اگر قابل ذکر تعداد میں عوام نکل آئے تو پھر عوام کا موڈ دیکھ کر لانگ مارچ کی کال دے دیں گے لیکن اچھے موسم اور رات نو بجے احتجاج کی کال دینے کے باوجود بھی عوام نے خان صاحب کی کال کو مسترد کر دیا ۔ ہمارے خیال میں دیگر وجوہات کے علاوہ عوام کو اس بات کابخوبی اندازہ ہے کہ دو ماہ کے عرصہ میں کوئی حکومت معیشت کو تباہ نہیں کر سکتی اور عوام گذشتہ حکومت کی کارکردگی بھگت رہے ہیں اور دوسرا یہ بھی واضح ہو گیا کہ خان صاحب کے پاس اب کہنے کو کچھ نہیں ہے ۔ ہمیشہ کی طرح خان صاحب الزامی سیاست پر تکیہ کئے ہوئے ہیں اور ان کے پاس  عوام کوموجودہ حالات کا حل بتانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے ۔ہماری تحریک انصاف کی قیادت سے گذارش ہے کہ اگر ان کے پاس سازش کے حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت ہیں تو وہ انھیں عوام کے سامنے لائیںورنہ جھوٹ اور الزام لگانے کے بجائے عوام کے سامنے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے اپنی پالیسی لائیں تاکہ ملک انتشار سے نکل کر استحکام کی طرف جا سکے۔

مصنف کے بارے میں