موثر بلدیاتی اور مجسٹریسی نظام؟

 موثر بلدیاتی اور مجسٹریسی نظام؟

عام شہری کو ایک مدت سے بجلی کی قلت،توانائی کے مہنگے ذرائع،اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں بے ہنگم اضافہ کے باعث مشکلات کا سامنا ہے،ماضی و حال کی ہر حکومت نے اس حوالے سے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی مگر ناکام رہی،اس کی بڑی وجہ ملک میں نگرانی کے منظم سسٹم کا فقدان ہے،دوسری وجہ اصل وجوہات کی بجائے ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مار کر صرف پوائنٹ سکورنگ تک محدود رہنا تھا،قوانین پر عملدرآمد میں امتیاز بھی اس کی وجہ رہی،بروقت اور فوری انصاف کی عدم فراہمی نے بھی مصنوعی مہنگائی کی حوصلہ افزائی کی،آج ایک بار پھر حکومت بجلی کی بچت کیلئے اقدامات بروئے کار لا رہی ہے مگر اس کے لئے نگرانی کا کوئی نظام نہ ہونے کے برابر ہے جس کی بناء پر ابھی سے کہا جا سکتا ہے کہ ماضی کی طرح یہ کوششیں بھی نتیجہ خیز نہیں ہوں گی۔
 تحریک انصاف کی حکومت نے اس سلسلے میں ایک سائینٹفک حل تلاش کیا تھا جس کے تحت بجلی کی بچت ممکن ہو سکتی تھی،سابق حکومت نے اعتراف کیا کہ الیکٹرک مصنوعات میں غیر معیاری استعمال کی وجہ سے بجلی کی کھپت زیادہ ہوتی ہے جو نہ صرف حکومت کیلئے بلکہ صارف کیلئے بل کی صورت میں پریشانی کا سبب ہے،بہت معمولی بات جس کا ادراک بہت دیر سے کیا گیا کہ گھروں میں استعمال ہونے والے پنکھوں میں غیر معیاری تار اور شیٹ کے استعمال سے 3800میگاواٹ بجلی ضائع ہوتی ہے اسی طرح پانی کے پمپوں اور ٹیوب ویلوں کیساتھ نصب موٹروں میں غیر معیاری تار اور میٹل شیٹ کی وجہ سے 5000میگا واٹ بجلی کا ضیاع ہوتا ہے مگر کسی حکومت نے الیکٹرک مصنوعات کا معیار بہتر کرنے کیلئے اقدامات نہ کئے،یہ ایک طرح کی ملاوٹ ہے جس کا چلن ملک میں عام ہے،یہاں تک کہ دودھ کو اللہ تعالیٰ کا نور کہا جاتا ہے مگر اللہ ذوالجلال کے نور میں ملاوٹ سے بھی گریز نہیں کیا جاتا،بجلی کی ترسیل کا نظام بھی بوسیدہ ہے جو طلب کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں،اس نظام میں نہ صرف بجلی کے ڈراپ ہونے کی شرح بہت زیادہ ہے بلکہ بجلی ضائع بھی بہت ہوتی ہے،مگر اس نظام کو جدید بنانے کی کسی حکومت نے کوشش نہ کی،ایوب خان دور میں بجلی کے ذریعے ریل چلانے کا آغاز کیا گیا،شاہدرہ سے خانیوال تک نئی ٹریک کے ساتھ بجلی کے پول نصب کئے گئے جن پر پون انچ موٹی تانبے کی تاروں کی تنصیب ہوئی تھی۔
 حکومت نے ایک بار پھر بجلی بچت مہم کا آغاز کیا ہے جس کے تحت مارکیٹیں رات 10بجے،ریسٹورانٹس 11 بجے بند کرنے کاحکم جاری کیا گیا ہے میڈیکل سٹورز، تنور اس حکم سے مستثنیٰ ہونگے،اس سلسلے میں کہا جا رہا ہے کہ تمام کمرشل فیڈرز رات 7بجے بند کر دئیے جائیں گے،سکیم تو بہت اچھی ہے مگر اس پر عملدرآمد کون کرائے گا،جبکہ اکثرچھوٹے تاجروں کے بجلی میٹر کمرشل نہیں ڈومیسٹک ہیں اور بڑے تاجروں کی اکثریت نے کمرشل کے ساتھ گھریلو میٹر سے بھی سپلائی حاصل کر رکھی ہے ان کی زیادہ تر بجلی کمرشل کے بجائے گھریلو میٹرز سے حاصل کردہ ہے،یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ملک میں نگرانی کا کوئی منظم اور مؤثر نظام ہی موجود نہیں،یہ کمی پوری کرتے تھے کمشنری نظام میں علاقہ مجسٹریٹ اور بلدیاتی نمائندے اور بد قسمتی سے یہ دونوں ادارے ہی موجود نہیں ہیں،ان حالات میں کیسی بھی قانون سازی کر لی جائے کیسے بھی منصوبے بروئے کار لائے جائیں کسی کی کامیابی کے بارے میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ترقی یافتہ ممالک میں عوامی مسائل کے فوری حل کیلئے اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم کی جاتی ہے اور مقامی حکومتوں ان کے نمائندوں کو با اختیار بنایا جاتا ہے یہ ادارہ اور نمائندے عوام سے براہ راست رابطہ میں ہوتے ہیں ان کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں اس لئے جلد اور بہتر حل کو یقینی بنانا آسان ہو جاتا ہے،مگر ہمارے ہاں مقامی حکومتوں کی اہمیت وقت کی حکومت کے جلسوں کو کامیاب بنانے کے سوا کوئی کام نہیں ہوتا،حکومتی اقدامات اصلاحات اعلانات پر یقینی عملدرآمد کیلئے مجسٹریسی نظام آزمودہ نظام ہے جو طویل عرصہ تک مروج رہا،آج بھی ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نظام کامیابی سے عوامی خدمت اور حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کرانے میں معاون ہے۔
 موجودہ حالات میں جبکہ بجلی کا بحران حدود عبور کر چکا ہے،بجلی چوری بھی معمول ہے بجلی کے ضیاع کو روکنا بھی مقصود ہے ایسے میں مجسٹریسی نظام کی غیر فعالیت سے ذخیرہ اندوزوں، تجاوزات اور مہنگائی مافیا،بجلی چوروں اور ضیاع کرنے والوں کوکو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے، انگریز ہندوستان پر قابض ہوئے تو انہیں ایسے سسٹم کی ضرورت محسوس ہوئی جس کے تحت مٹھی بھر افسروں کے ذریعے پورے برصغیر کوآسانی و کامیابی کے ساتھ کنٹرول کیا جاسکے جس کی روشنی میں ایگزیکٹیو مجسٹریسی نظام رائج کیا گیا، اس نظام میں بہت سی خامیاں ہوں گی لیکن عشروں کی آزمائش نے اسے آزمودہ نظام بنادیا، انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے والی کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے ہی انگریزکے اس سسٹم کو قائم رکھا،پاکستان میں بھی یہ نظام عشروں تک قائم رہا، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس خاصے اختیارات ہوا کرتے تھے، پھر اس کے نیچے سب ڈویڑنل مجسٹریٹس اور علاقہ مجسٹریٹس ہوا کرتے تھے،یوں ضلع کی سطح پر حکومتی رٹ کے نفاذ کا موثرنظام موجود تھا،سابق صدر پرویز مشرف نے2001میں ملک سے ایگزیکٹو مجسٹریسی کا نظام منسوخ کرکے لوکل گورنمنٹ نظام لانے کی منظوری دی،مشرف حکومت ختم ہونے کے بعد پنجاب اور دیگر صوبے ایگزیکٹو مجسٹریسی کی بحالی کا مطالبہ کرتے رہے جبکہ وفاقی حکومت ایگزیکٹو مجسٹریسی کی بحالی کیلئے (Code of Criminal Procedure 1898) کے مختلف سیکشن میں ترامیم کا ارادہ رکھتی تھی جن کے تحت اختیارات ایگزیکٹو مجسٹریٹس کو دیئے جائیں گے،ایگزیکٹو مجسٹریٹس کو پرائس کنٹرول کرنے،مقامی قوانین پر عملدرآمد اور لاء اینڈآرڈر کی صورتحال کنٹرول کرنے کے ساتھ وقت بوقت حکومتی اقدامات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے اختیارات تفویض کئے جائیں گے،خاص طور پر بجلی چوری اور اس حوالے سے اصلاحات پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے ان کو بروئے کار لایا جائی گا،تبھی ایسا ممکن ہو گا کہ بجلی کی بچت کو یقینی بنایا جا سکے،مون سون کا آغاز ہو چکا ہے محکمہ موسمیات کے مطابق اس مون سون میں اربن فلڈنگ کا خطرہ ہے اگر انتظامی مجسٹریسی نظام بحال ہو تو سیلاب اور بارشوں سے ہونے والے ممکنہ نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔
 انتظامی مجسٹریٹس دراصل نچلی سطح پر حکومتی امور سنبھالنے کیساتھ فوری سزائیں دے کر عدل بھی کرتے اور عوام کو ریلیف دیتے ہیں،یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں حکومتی اقدامات اصلاحات اعلانات پر خوش اسلوبی سے عملدرآمد بھی ممکن ہوتا ہے اور عوام کو انصاف کیساتھ ریلیف بھی ملتا ہے،یوں حکومت بھی خوش اور عوام بھی راضی،نہ جانے کیوں بلدیاتی نظام اور حکومت کو مستحکم کرنے والے انتظامی مجسٹریسی نظام کو اس کی پوری روح کیساتھ بحال نہیں کیا جاتا،اس نظام کے ذریعے حکومت نگرانی کا مؤثر انتظام قائم کر سکتی ہے جو حکومتی اقدامات کی کامیابی کی ضمانت ہے ورنہ کیسے بھی سخت قوانین بنا لیں نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا۔

مصنف کے بارے میں