عمران خان پیشی: پرتشدد کارروائیوں میں غیرملکیوں، سرکاری ملازمین اور دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کے ملوث ہونے کا انکشاف

عمران خان پیشی: پرتشدد کارروائیوں میں غیرملکیوں، سرکاری ملازمین اور دوہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کے ملوث ہونے کا انکشاف
سورس: File

اسلام آباد: توشہ خانہ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس میں پیشی کے دوران ہونے والے تشدد کے 2 الگ الگ مقدمات کے سلسلے میں اسلام آباد پولیس کی طرف سے گرفتار کیے گئے 300 سے زائد افراد میں بڑی تعداد میں سرکاری افسران بھی شامل ہیں۔

انگریزی اخبار ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق پولیس افسران نے بتایا کہ اب تک سی ٹی ڈی اور گولڑہ تھانوں میں دہشت گردی سمیت متعدد الزامات کے تحت درج تشدد کے مقدمات کے سلسلے میں 332 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ا تفتیش کے دوران گرفتار افراد میں بڑی تعداد میں سرکاری اہلکار پائے گئے ہیں۔ 

سرکاری افسران کا تعلق  پولیس سمیت مختلف وفاقی اور صوبائی محکموں سے ہے۔ تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ انہوں نے پارٹی سربراہ عمران خان کے ساتھ پی ٹی آئی کی ریلی میں بھی شرکت کی۔ ان میں سے بعض عمران خان حامی اور کارکن ہیں ۔ سرکاری افسران اور ملازمین نے جوڈیشل واقعہ میں پولیس پر تشدد  بھی کیا۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس ان گرفتار سرکاری اہلکاروں کے محکموں کو تشدد میں ملوث ہونے اور حکومت کے خلاف نکالے گئے ہجوم کے اجتماع میں شامل ہونے پر ان کے خلاف محکمانہ اور قانونی کارروائی کرنے کی درخواست کے ساتھ آگاہ کر رہی ہے۔ سیف سٹی فوٹیج کی جانچ کے دوران مزید سرکاری افسران کو بھی تشدد اور ریلی میں دیکھا گیا ان کو بھی تلاش کیا جا رہا ہے۔ 

پولیس افسران نے بتایا کہ سمندر پار پاکستانیوں، دوہری شہریت رکھنے والے اور غیر ملکیوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی گرفتار کیا گیا ۔ جن ممالک میں وہ مقیم ہیں وہاں کے سفارت خانوں اور ہائی کمیشنوں سے بھی تحریری طور پر رابطہ کیا جا رہا ہے تاکہ پرتشدد کارروائیوں میں ان کی شرکت پر ضروری کارروائی کی جا سکے۔ 

گرفتار افراد میں خیبر پختونخوا اور کشمیر کے مقامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ افسران نے بتایا کہ ان گرفتار افراد کے مقامی ٹاؤن پولیس سے بھی ان کے مجرمانہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے لیے رابطہ کیا جا رہا ہے۔ الگ الگ ٹیمیں مزید لوگوں کو گرفتار کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جن کی ابھی تک سیف سٹی فوٹیج کے ذریعے شناخت ہوئی ہے اور وہ ابھی تک فرار ہیں۔

مصنف کے بارے میں