دو کہانیاں ایک انجام؟

دو کہانیاں ایک انجام؟

زیادہ پرانی بات نہیں جب سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں نواز شریف کی جمہوری حکومت کو چلتا کر کے اقتدار سنھبالا تو ان کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی گئی۔ انھوں نے بطور چیف ایگزیکٹو ملک کے اقتدار پر قبضہ کیا تو کوئی بھی سیاسی جماعت اس قابل نہیں تھی جو اس مارشل لا کا مقابلہ کر سکے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے لیے چیف ایگزیکٹو کے عہدے کا انتخاب اس لیے کیا کہ مارشل لا کے تاثرکو کم کیا جا سکے جو کہ عملی طور پر نافذ ہو چکا تھا۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ بڑے پیمانوں پر ن لیگی رہنماؤں کی گرفتاریوں اور نظر بندیوں کے نتیجے میں حالات ایسے نہیں تھے کہ کوئی بڑی تحریک چلائی جا سکتی۔ پیپلز پارٹی کی شریک چیئر پرسن بے نظیر بھٹو پہلے سے خود ساختہ جلاوطنی کے نتیجے میں لندن میں موجود تھیں۔ چو نکہ مسلم لیگ ن کو اقتدار سے الگ کیا گیا تھا اس لیے پیپلزپارٹی نے اس وقت کے چیف ایگزیکٹو پرویز مشرف کے خلاف تحریک چلانے سے گریز کیا۔ اکا دکا احتجاج کے علاوہ کسی بھی سیاسی جماعت نہ احتجاج نہیں کیا۔ اس طرح عملی طور پر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی غیر قانونی اور غیر آئینی حکومت کو اخلاقی جواز میسر آ گیا۔ پرویز مشرف کی اقتدار پر گرفت مضبوط ہو گئی۔ شریف برادران کو جلا وطن کر دیا گیا۔ اب ملک میں کوئی سیاسی قیادت نہیں تھی جو جنرل پرویز مشرف کا مقابلہ کرتی۔ پرویز مشرف نے سیاسی قیادتوں کو کرپٹ قرار دے ملکی ترقی کے لیے 7 نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا۔ اس پلان کے تحت پرویز مشرف ایک لمبے عرصے تک حکومت کے خواہاں تھے۔ 2000ء اس وقت کے چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں ایک بنچ نے پرویز مشرف کو حکم دیا کہ وہ تین سال کے اندر انتخابات کرائیں۔ 2002 میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے پرویز مشرف باوردی صدر منتخب ہو گئے۔ مسلم لیگ ن کو توڑ کر ق لیگ کی صورت میں کنگز پارٹی بنائی گئی۔ 2002 کے انتخابات کے نتیجے میں ملک میں مسلم لیگ ق کی حکومت بنی تو پرویز مشرف کی باوردی صدارت کو اخلاقی جواز بھی میسر آ گیا۔ 2003 میں متحدہ مجلس عمل کے ساتھ پرویز مشرف نے معاہدہ کیا کہ وہ 2004 تک وردی اتار دیں گے۔ لیکن انھوں نے یہ وعدہ نبھانے کے بجائے اپنی حامی جماعت مسلم لیگ ق کے ذریعے سترہویں ترمیم منظور کرا کے باوردی صدارت کو قانونی اور آئینی جواز بھی فراہم کرا دیا۔ ان کے دل میں ایک انجانا خوف تھا کہ کہیں اگر یہ وردی اتر گئی تو کوئی ان کی بات نہیں مانے گا۔ اگر ان کو میسر مصنوعی اخلاقی جواز ختم ہو گیا تو وہ وردی کی طاقت کے بل بوتے اپنا اقتدار قائم رکھ سکیں گے۔ پرویز مشرف اور مسلم لیگ ق ڈلیور کرنے میں ناکام رہیں۔ اس دوران سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے مسلسل آئین کی پامالی کا عمل جاری رہا۔ پانچ سال باوردی صدارت رہنے کے بعد پرویز مشرف 2007 میں اپنی حمایت یافتہ جماعتوں کی مدد سے ایک بار پھر صدر منتخب ہو گئے۔ لیکن اس بار وہ بنا وردی صدر تھے۔ انھوں نے نو سال بعد فوجی سربراہ کا عہدہ چھوڑا۔ اقتدار سے باہر جلاوطن مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے ذاتی اختلافات بھلا کر سر جوڑکے بیٹھیں۔ میثاق جمہوریت کے نتیجے میں دونوں جماعتوں نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا۔ ملک میں ایک بار پھر حقیقی جمہورت کی سوچ نے انگڑائی لینا شروع کی۔ پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تو ملک میں وکلا تحریک شروع ہو گئی۔ اس بار پرویز مشرف کو اپنی وردی کا سہارا حاصل نہیں تھا۔ بے نظیر اور نواز شریف ملک میں واپس آ چکے تھے۔ دونوں نے وکلا تحریک کی حمایت کی۔ 27 دسمبر 2007 کو بے نظیر راولپنڈی میں شہید کر دی گئیں۔ 2008 میں پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تو پرویز مشرف کو مستعفی ہونا پڑا۔ کیونکہ وہ اخلاقی جواز کھو چکے تھے۔ دنیا میں اگر کسی شخص کے پاس دولت، طاقت اور اختیار ہے لیکن اخلاقی جواز سے محروم ہے تو وہ حق حکمرانی کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ اس کے برعکس اگر کسی شخص کے پاس مذکورہ بالا تینوں چیزیں نہ بھی ہوں تو اقتدار اس کو پیش کر دیا جاتا ہے۔ پرویزمشرف کے غیر آئینی اقدامات کی فہرست اس قدر طویل ہے جس نے ان سے ہر طرح کا قانونی اور اخلاقی جواز چھین لیا۔ آج تاریخ کا گمنام حصہ بن چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن جلاوطن ہونے کے باوجود اقتدار کے حقدار ٹھہرے۔ کہانی کے دوسرے کردار کے تانے بانے بھی غیر جمہوری اور غیر اخلاقی رویوں سے جڑے شخص کی ہے۔ یہ انصاف، جمہوریت اور احتساب کے خوشنما نعروں کے ذریعے نوجوانوں کو متاثر کرنے والے عمران خان کی کہانی ہے۔ عمران خان بطور کر کٹر اور سیاستدان کبھی بھی لیڈر نہیں بن سکے۔ وہ ہمیشہ ایک سپر سٹار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ لیڈر وہ شخص ہوتا ہے جس سے عوام پیار کرتے اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ لیڈر عوام کے اس اعتماد کو بھی ٹوٹنے نہیں دیتا۔ ان کی محبت میں ان کے لیے دن رات فکرمند اور سرگرداں رہتا ہے۔ جبکہ ایک سپر سٹار کو عوام تو چاہتے ہیں لیکن اس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ صرف اپنی ذات سے محبت میں مبتلا رہتا ہے۔ عمران خان کو عوام نے ہمیشہ محبت دی سر آنکھوں پر بٹھایا۔ شوکت خانم سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک سب کچھ اس کی جھولی میں ڈال دیا۔ عمران خان نے اقتدار کی خاطر ملک میں موجود سیاسی طاقتوں پر الزامات کی سیاست کی۔ جب انتخابی سیاست کے ذریعے اقتدار نہ ملا تو جھوٹے مقدمات لے کر عدالتوں میں گئے۔ واقفان حال کے مطابق اس کام کے لیے انھیں نادیدہ ہاتھوں کی حمایت بھی حاصل رہی۔ ایسے وقت میں جب پاکستان ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے گامزن تھا۔ پراپیگنڈا کے ذریعے ایک ایسا ماحول بنایا گیا کہ ہر جانب چور اور غدار کے نعرے گونجنے لگے۔ جنوبی پنجاب محاذ، الیکٹ ایبلز اور چھوٹی جماعتوں کو جوڑ کر اقتدار عمران خان کو دیا گیا تو عمران خان کے پاس ایک اخلاقی جواز موجود تھا کہ وہ ملک سے کرپشن ختم کریں گے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے۔ چار سال میں ایک بھی وعدہ وفا نہ ہوا۔ ملک میں کرپشن کا ریٹ بڑھ گیا۔ عمران خان کے ارد گرد بیٹھے لوگوں کے نام چینی، آٹا، ایل این جی، ادویات اور پٹرول سکینڈل میں آئے۔ عمران خان نے چشم پوشی کی۔ صوبہ پنجاب کو عثمان بزدار کی نااہلی کے سپرد کر کے گوگی راج لگا دیا۔ ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور غربت انتہا پر پہنچ گئی۔ ڈالر، پٹرول اور بجلی عوام کی پہنچ سے باہر ہو گئے۔ اصل میں ملک کھوکھلا اور خزانہ خالی چھوڑ کر اب عمران خان حب الوطنی کی آڑ میں شہر شہر اپنی سیاست کا اخلاقی جواز ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ خان صاحب حقیقت یہ ہے کہ آپ کے پاس پھر سے اقتدار میں آنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ یہ ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے جس کے ذمہ دار آپ ہیں۔ عوام کا آپ پر اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ خوش قسمتی سے ایک اہل قیادت ملک میں موجود ہے جو مل کر منجھدار میں پھنسی اس کشتی کو نکالنا چاہتے ہیں۔ لیکن خان صاحب اس کشتی میں مزید سوراخ کر کے ڈبونے کے درپے ہیں۔ لیکن جمہوریت پسند عوام حکومت اور اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایسے میں ملکی ادارے کسی دباؤ میں آئے بغیر واضح اور جاندار کردار ادا کریں۔ خان صاحب کا انجام بھی پہلی کہانی جیسا ہو گا۔ ایک دن خود بخود تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔

مصنف کے بارے میں