جمال خاشقجی کا قتل،امریکہ اور ترکی کا اصل حقائق سامنے لانے پر اتفاق

جمال خاشقجی کا قتل،امریکہ اور ترکی کا اصل حقائق سامنے لانے پر اتفاق
کیپشن: Image by ABC

واشنگٹن :سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کو لیکر عالمی سطح پر ہنگامہ برپا ہوا ہے اور اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک ہم منصب طیب اردگان کا ٹیلی فون پر رابطہ ہوا ہے جس میں جمال خاشقجی کے قتل کے اصل حقائق سامنے لانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ترک صدر طیب اردگان انقرہ کے سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات سے متعلق اپنی جماعت کے رفقاءکو آج اعتماد میں لیں گے۔ترکی کے تفتیش کاروں نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے تحقیقات مکمل کر لی ہیں۔

تفتیش کاروں نے اپنی تحقیقات سے متعلق مفصل رپورٹ ترک صدر کو بھیج دی تھی۔ رپورٹ موصول ہونے پر صدر طیب اردگان اپنی کابینہ اور جماعت کے اراکین کو تحقیقات سے آگاہ کریں گے۔صحافی جمال خاشقجی 2 اکتوبر کو استنبول کے سعودی قونصل خانے میں لاپتہ ہوگئے تھے۔ سعودی حکام کا اولین دعویٰ تھا کہ صحافی کچھ دیر بعد واپس چلے گئے تھے لیکن ترکی کے حکام نے سعودی مو¿قف کو رد کردیا تھا۔


ترک حکام کا دعویٰ تھا کہ صحافی کو قونصل خانے میں ہی قتل کرکے لاش قریبی جنگل یا کھیت میں چھپادی گئی ہے۔ لاش کی برآمدگی کیلئے تلاش کا کام بھی شروع کیا گیا تھا تاہم میڈیا کو اپ ڈیٹس نہیں دی گئی تھیں۔ ترکی کے تفتیش کاروں کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ 2 اکتوبر کو ہی 10 سے زائد سعودی حکام چارٹرڈ طیارے سے استنبول پہنچے تھے اور ان تمام افراد کے سعودی قونصل میں داخلے اور کام مکمل کرنے کے بعد واپس جانے کی سی سی ٹی وی فوٹیجز موجود ہیں۔


ترک تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ یہی افراد جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہیں ان میں سے ایک شخص فرانزک لیب کا ماہر ہے جب کہ باقی افراد یا تو انٹیلی جنس کے اہلکار ہیں یا پھر سعودی ولی عہد کے محافظ تھے۔


ترکی کے تفتیش کاروں نے صحافی کی گمشدگی کے بعد سعودی قونصل خانے کے پہلی بار معائنے کے بعد قتل کے حوالے سے آڈیو اور ویڈیو شواہد بھی حاصل کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور انہی شواہد کی بناءپر تفتیش کو آگے بڑھایا گیا تھا۔


ترک صدر طیب اردگان کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے اب تک کی تحقیقات سے اپنی جماعت کے رفقاءکو اعتماد لیں گے بعد ازاں میڈیا کے ذریعے یہ معلومات پوری دنیا کو فراہم کیے جانے کا امکان ہے۔


ترک صدر کا کہنا تھا کہ صحافی کے قتل کی تحقیقات کے لیے کسی دباو¿ کو قبول نہیں کیا اور ملکی قوانین کے تحت شفاف تحقیقات کو مکمل کرلیا ہے جس میں ہوشربا حقائق سامنے آئے ہیں۔
خیال رہے کہ سعودی عرب کا بھی عالمی دباﺅکے بعد جمال خاشقجی کی استنبول کے سعودی قونصل خانے میں موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صحافی ہاتھا پائی کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔ تاہم لاش کے حوالے سے سعودی حکام نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔


آسٹریلیا، کینیڈا، اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے خاشقجی کے قتل کے معاملے پر سعودی عرب سے مزید وضاحت مانگی ہے، جبکہ جرمن چانسلر اینجلا مرکل کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں جرمنی سعودی عرب کو ہتھیار برآمد نہیں کرسکتا ہے، جرمنی نے گذشتہ ماہ ہی سعودی عرب سے 480 ملین ڈالر کے اسلحے کی فروخت کا معاہدہ کیا ہے۔