ہلڑ بازی کی سیاست سے گریز کریں

ہلڑ بازی کی سیاست سے گریز کریں

ویسے تو بڑے بڑے بادشاہ، غاصب اور آمر، جن کا خیال تھا کہ کوئی ان کی ہوا تک کو نہیں چھو سکتا، جب وقت کے شکنجے میں آئے تو ان کی بے عزتی اور بے توقیری گلیوں بازاروں میں کی گئی۔ افسوس کہ ارباب اختیار تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے اکثر سیاستدان بھی کچھ اسی قسم کی سوچ کے حامل ہیں لیکن اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب ان میں سر فہرست ہیں تو زیادہ غلط نہ ہو گا۔ ریاست کے ساتھ ٹکراؤ کو اپنا طرہ امتیاز سمجھنے والے عمران خان سول نافرمانی کی کالیں دینے سے لے کر ملک کے تقریباً تمام ہی اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد پر الزام تراشیاں کرنے اور اور انہیں دھمکیاں کے عمل میں ملوث رہے ہیں (یہ الگ بات ہے کہ اگر کوئی سامنے والااکڑ جائے تو معافی مانگنے میں بھی زیادہ دیر نہیں لگاتے) لیکن ان کی خوش قسمتی کہ یہ اب تک قانون کے شکنجے میں آنے سے بچتے رہے۔ چونکہ ماضی میں مقتدر قوتوں کے لاڈلے رہے شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو قانون سے بالا تر سمجھنا شروع کر دیا اور ہر قانون، آئین، قاعدے اور اصول کو روندتے چلے گئے۔ 
موصوف ویسے تو جلسے جلوسوں میں بڑے بڑے بیانات دینے، گرفتاری سے نہ ڈرنے کے اعلانات کرنے اور اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری عہدیداروں کو دھمکیا ں دینے سے نہیں چوکتے لیکن حقیقی دلیری کا یہ عالم ہے کہ جب بھی کسی قانون شکنی یا آئین شکنی کی وجہ سے انہیں گرفتاری کا خدشہ ہوا تو انہوں نے سیدھے صوبہ خیبر پختونخوا کی راہ لی یا پھر کارکنوں کو اپنی رہائشگاہ کے باہر جمع کر لیا تاکہ اگر کوئی ریاستی ادارہ انہیں گرفتار کرنے کی کو شش کرے تو ایک تصادم کی صورت پیدا ہو سکے۔ 
گزشتہ روز ایک ریفرنس،جو قومی اسمبلی کے سپیکر کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو بھجوایا گیا تھا،  پر فیصلہ سنا یا گیا۔ فیصلے کے مطابق عمران خان صاحب کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا گیا ہے اور شائد مزید کارروائی کے لیے معاملہ عدالت کو بھجوایا جائے۔ مذکورہ ریفرنس کے تحت خان صاحب پر الزام تھا کہ انہوں نے توشہ خانہ سے غیر ملکی قیمتی تحائف اونے پونے خریدے اور پھر انہیں اوپن مارکیٹ میں مہنگے داموں فروخت کر دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ الیکشن کمشن آف پاکستان کو بطور رکن اسمبلی فراہم کی گئی اپنے اثاثوں کی فہرست میں اس رقم کا ذکر ہی گول کر گئے۔ 
اگرچہ عمران خان صاحب خود اور ان کے وکلا ان تمام حرکات کی مختلف توضیحات پیش کرتے ہیں لیکن یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مکمل چھان بین کرنے اور اورخان صاحب کے وکیل کا موقف سننے کے بعد ایک متفقہ فیصلے کے تحت سزا سنائی ہے۔ لیکن اگرپھر بھی کسی کو کوئی شک و شبہ ہو تو ہائیکورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ویسے توخان صاحب کے وکلا اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے ریلیف مل جانے کے سلسلہ میں خاصے پر امید ہیں لیکن پھر بھی  الیکشن کمیشن کا فیصلہ آتے ہی (جیسا کہ امید کی جا رہی تھی اور اعلانات بھی کیے جا رہے تھے)  پی ٹی آئی کے مشتعل کارکن باہر نکل آئے، خوب ہلڑ بازی کی اور گھنٹوں سڑکیں بلاک رکھیں۔ 
الیکشن کمیشن کی طرف سے جو فیصلہ آیا اسی کی امید کی جا رہی تھی، یہی وجہ ہے تھی کہ پی ٹی آئی کی قیادت نے اس متوقع فیصلے کے ردعمل میں شدید قسم کے احتجاج کی دھمکی دے رکھی تھی۔ امیدتو یہ تھی کہ اس کال کے جواب میں ہزاروں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ جلسے، جلوس اور دھرنے ہوں گے اور پورا ملک مفلوج ہو کے رہ جائے گا۔ لیکن حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ مختلف شہروں میں ٹولیوں کی شکل میں ہلڑ باز نکلے تو ضرور لیکن اطلاعات کے مطابق کسی بھی ٹولی میں سو سے زائد افراد نہ تھے۔ 
صورتحال کی اطلاعات جب عمران خان صاحب، جن کی سیاست کا محور ہی جلسے، جلوس اور دھرنے ہے، تک پہنچیں تو انہوں نے عافیت اسی میں سمجھی کہ فوری طور پر احتجاج کی کال واپس لے لی جائے۔ 
گزشتہ روز جب پی ٹی آئی کے کارکن سڑکوں پر ہلڑ بازی کر رہے تھے اور مجھ سمیت ہزاروں افراد سڑکوں پر خوار ہو رہے تھے تومجھے اس وقت وہ عمران خان بہت یاد آ رہا تھا جو کبھی حکومت میں ہوا کرتا تھا۔ اس وقت کی اپوزیشن جب بھی احتجاج، جلسے، جلوس اور دھرنے کی کوشش کرتی تھی تو خان صاحب کو کس قدر احساس ہوتا تھا اس مزدور کا جو احتجاج کی وجہ سے دیہاڑی پر نہیں جا سکے گا، اس طالبعلم کے نقصان کا جو سکول نا جانے کی وجہ سے ہوگا، ان مریضوں کا جنہیں ہسپتال پہنچنے میں دقت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا، دفاتر میں بابووں کی غیر حاضری کی وجہ سے حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کو پہنچنے والے نقصان کا، احتجاج کی وجہ سے ہونے والے کاروباری نقصان کا اور بیرونی دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا۔ 
افسوس یہ ساری فکر مندی اور اصول پسندی انہیں  صرف اسی وقت یاد آتی ہے جب وہ حکومت میں ہوں۔ ورنہ ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ یہ کس طرح وفاقی دارالحکومت میں کئی ماہ تک دھرنا دے کر بیٹھے رہتے تھے، جلسے جلوسوں کی وجہ سے ٹریفک کو متاثرکرتے ہیں، مختلف شہروں کو بند کر دینے کی دھمکیاں دیتے ہیں  اور اب توایک لانگ مارچ کا اعلان بھی کیے بیٹھے ہیں۔اور آج بھی ان کی احتجاج کی کال پنکچر نہ ہو جاتی تو انہوں نے عام آدمی کی زندگی کو عذاب میں ڈالا ہونا تھا۔ 
واضح رہے کہ الیکشن کمشن کی جانب سے عمران خان کو نااہل قرار دیا جانا کوئی ایسی انوکھی بات بھی نہیں۔ یہاں قومی لیڈرز قتل بھی ہوئے ہیں، پھانسی پر بھی جھولے ہیں، دہشت گردی کا شکار بھی ہوئے ہیں، توہین عدالت میں سزا یافتہ بھی ہوئے ہیں اور نامعقول وجہ پر نااہل بھی ہوئے ہیں۔ لیکن اس قسم کی بے جا  ہلڑ بازی جو گزشتہ شام کو دیکھی وہ کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ 
ماضی میں جو بھی ہوا سو ہوا اب بھی وقت ہے کہ ہم سب اپنا قبلہ درست کریں اور عوام کو ستانے کی سیاست سے گریز کریں۔ خاص طور پر عمران خان صاحب اور ان کی پارٹی سے دست بدستہ درخواست ہے کہ اپنی سیاست ضرور کریں اوراپنے احتجاجی پروگرام پر بھی عمل کریں لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کی مخالفت یا دشمنی حکومت سے ہے عوام سے نہیں اس لیے اپنی تحریک اور احتجاج سے حکومت کو ضرور تنگ کریں لیکن خدارا عوام کو معاف رکھیں۔

مصنف کے بارے میں