میئر کراچی نے شہر کا حلیہ بگاڑ دیا، چیف جسٹس آف پاکستان

 میئر کراچی نے شہر کا حلیہ بگاڑ دیا، چیف جسٹس آف پاکستان
کیپشن: سڑکوں پر پانی کھڑا تھا لیکن کے ایم سی عملہ کہیں نظر نہ آیا، جسٹس گلزار احمد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فائل فوٹو

کراچی: بلدیاتی اداروں کے اختیارات سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کراچی کا موجودہ نظام عوام کو فائدہ نہیں دے رہا اور 5 سال ایم کیو ایم نے کیا کیا جبکہ میئر کراچی نے تو شہر کا حلیہ بگاڑ دیا۔

بلدیاتی اداروں کے اختیارات سے متعلق سپریم کورٹ میں پانچ متفرق درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ مقامی حکومتوں کا ہونا کسی کی پسند نہیں بلکہ لازمی ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اختیارات کی منتقلی سے ہچکچا رہی ہیں۔چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کراچی میں لوگ سڑکوں پر مر رہے تھے اور گھروں میں پانی داخل ہو چکا تھا، سڑکوں پر پانی کھڑا تھا لیکن کے ایم سی عملہ کہیں نظر نہ آیا اور کاغذوں میں عملہ موجود ہے لیکن موقع پر دکھائی نہیں دیتا، اس کا مطلب ہے گھوسٹ ملازمین ہیں اور اربوں روپے تنخواہوں کی مد میں کھائے جا رہے ہیں اور ہم نے وہ دور دیکھا ہے جب رات کو تین بجے کام شروع ہو جاتا تھا سڑکیں دھوئی جاتی تھیں۔ کہاں گئے وہ لوگ۔ 

جسٹس گلزار احمد نے مزید کہا کہ کیا گارنٹی ہے مقامی حکومتیں اختیارات ملنے پر کام کروائیں گی۔ کراچی کو جو بھی نظام دیا گیا اس کے اچھے نتائج نہیں نکلے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کراچی، اسلام آباد کی نسبت بڑا شہر ہے، اسلام آباد میں بھی اداروں کے درمیان اختیارات کا ٹکراؤ رہتا ہے، جب تک قانون سازی نہیں ہو گی اداروں کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہو گی۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ایم کیو ایم کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ مقامی حکومت آپ کی تھی آپ نے اپنے دور میں کیا کیا۔ لوگ ڈوب کر مر رہے تھے اور لوگوں کے گھر بھی گر رہے تھے، بلدیاتی حکومت کہاں تھی جبکہ کے ایم سی کے 20 ہزار ملازمین تنخواہیں لیتے ہیں لیکن سڑکوں پر کیوں نہیں نظر آئے۔ 

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سندھ کا بلدیاتی قانون تین میں ہے نہ 13 میں تاہم شہریوں کا مفاد دیکھ کر قانون سازی ہونی چاہیے۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔ بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے سماعت اکتوبر کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔