عدالتی معاملات

عدالتی معاملات

نئے عدالتی سال کی تقریب میں چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کا خطاب حیرت انگیز تو نہیں مگر توقع سے کہیں زیادہ سخت تھا ۔ چیف جسٹس نے پنجاب میں پرویز الٰہی کی حکومت کے قیام سے متعلق فیصلے کو میرٹ پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس کے لیے فل کورٹ بنانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وفاقی حکومت نے اسی رنجش کا بدلہ چکانے کے لیے نئے ججوں کی تعیناتیوں کے متعلق ان کے نامزد امیدواروں کی مخالفت کی ۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس معاملے پر سیاسی پارٹی بازی کی ۔ چیف جسٹس کو اس کا جواب تو بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے یہ کہہ کر اسی تقریب میں دے دیا کہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کرووٹ ڈالنے سے پہلے ہی ارکان اسمبلی کی نااہلی کے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط ہے ۔ وکلا برادری فل کورٹ بنا کر تصحیح کرنے کے مطالبے پر قائم ہے۔ جہاں تک نئے ججوں کی تعیناتی کا معاملہ ہے تو اس پر وکلا برادری کے دونوں بڑے گروپ حامد خان ، عاصمہ جہانگیر گروپ سختی کے ساتھ اس موقف پر قائم ہیں کہ سپریم کورٹ میں نئے ججوں کی تعیناتیاں سنیارٹی کی بنیاد پر ہونی چاہئیں، ہم خیال جج بھرتی کرنے کے لیے مختلف ہائیکورٹس سے اپنے مرضی سے جونیئر جج آگے لانا کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ۔ چیف جسٹس کے اس خطاب کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وفاقی حکومت بھی وزیر قانون کے ذریعے وضاحت کرتی مگر شاید خوف آڑے آگیا ۔ ورنہ اتنا تو کہا جاسکتا تھا کہ ہمیں پہلے ہی ہم خیال بنچ سے شکایات ہیں۔ اب جب کہ چیف جسٹس نے اس حکومت کے متعلق اپنا ذہن واضح کردیا ہے تو انصاف کا تقاضا ہے کہ وہ اور ان کے ہم خیال جج صاحبان وفاقی حکومت اور اس میں شامل سیاسی جماعتوں کے انفرادی و اجتماعی معاملات سے متعلق کیسوں کی سماعت کرنے سے خود ہی معذرت کرلیں ۔ اب تک تو ایسا نہیں ہوا لیکن لگتا ہے وہ موڑ کسی وقت بھی آسکتا ہے۔ جوڈیشل کمیشن میں ججوں کی تعیناتی کے متعلق چیف جسٹس کے ریمارکس پر ایک مناسب وقفے کے بعد اسی اجلاس میں شریک سینئر ترین ججوں مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسی اور مسٹر جسٹس سردار طارق مسعود نے جامع خط لکھ کر ساری صورتحال واضح کردی۔ خط میں کہا گیا ہے کہ’’نئے عدالتی سال کے آغازکی تقریب میں چیف جسٹس آف پاکستان ،مسٹر جسٹس عمر عطا بندیال کے خطاب نے ہمیں مایوس کیا ہے، تقریب کے وقار کے تحفظ کی خاطر ہم دونوں چیف جسٹس کے خطاب کے دوران خاموش رہے ہیں لیکن ہماری خاموشی کو غلط مفہوم پہناتے ہوئے ہماری رضامندی سے تعبیر نہ کیاجائے ،خط میں کہاگیاہے کہ اس تقریب کا مقصد یہ تھا کہ کہ ہم اپنی ترجیحات کا تعین کریں اور اگلے عدالتی سال کے لئے تصور واضح کریں، لیکن چیف 
جسٹس نے اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہا ہے ، انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلوںکا دفاع کیا اور اس کے فیصلوں پر کی جانے والی تنقید کا جواب دیا، سپریم کورٹ کی جانب سے یکطرفہ طور پر بات کی ہے حالانکہ سپریم کورٹ تنہا چیف جسٹس پر مشتمل نہیں ہے ،بلکہ اس میں سپریم کورٹ کے تمام جج شامل ہیں،چیف جسٹس نے زیر سماعت مقدمات پر تبصرہ کیا ،جو کہ نہایت پریشان کن تھا، انہوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور اس کے موجودہ اور متعدد سابق عہدیداروں  کے بارے میں غیر ضروری اور اہانت آمیز باتیں کیں اور ان پر سیاسی پارٹی بازی کا الزام لگایاہے ، کیونکہ ان کی جانب سے مذکورہ مقدمہ میں فل کورٹ بینچ کی تشکیل کی درخواست دائر کی گئی تھی چونکہ سپریم کورٹ نے ان کی درخواست مسترد کر دی تھی، توچیف جسٹس ان کی اہانت اور ان کی طرف محرکات کی نسبت بات نہیں کر سکتے تھے،فاضل ججوں نے لکھا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین سپریم کورٹ سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ فیصلے دے ، لیکن جو امر سب سے زیادہ نامناسب اور غیر معقول تھا وہ ان پر تبصرہ کرنا تھا ،خط میں گیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن ایک الگ اور خو دمختار ادارہ ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن نے اپنے چیئرمین کی جانب سے سے تجویز کیے گئے امیدواروں کی منظوری نہیں دی اور انہوں نے وفاقی حکومت کے نمائندو ں وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل پر الزام لگایا اور ناراضی کا اظہار کیاجوڈیشل کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے چیف جسٹس کو کسی بھی صورت میں ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا جو کہا گیا ، خط میں کہا گیا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے تمام اراکین بشمول چیئرمین برابر ہیں اور چیف جسٹس کی ذمہ داری صرف اس کے اجلاس کی سربراہی کرنا ہے ،کمیشن نے 28جولائی کو چیف جسٹس کے نامزد پانچ امیدواروں کی نامزدگی کی منظوری نہیں دی تھی ،یہ چیف جسٹس کو زیب نہیں دیتا کہ وہ کمیشن کے ارکان پر حملہ کریں وہ بھی عوام کے سامنے اور صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے ان کے امیدواروں کی تائید نہیں کی، خط میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے خود کہاہے کہ آئینی اداروں کو کسی صورت بھی مجروح یا ان کے احکامات کی خلاف ورزی اور ان پر حملہ نہیں کرنا چاہئے،لیکن چیف جسٹس نے کمیشن کے اکثریتی فیصلے کو تسلیم نہ کرکے خود ہی خلاف ورزی کردی ہے ،اس خط کی سب سے اہم بات یہ ہے دونوں فاضل ججوں نے لکھا ہے کہ چیف جسٹس نے جو کہا ہے وہ ریکارڈ کے بھی خلاف تھا ،جیسا کہ جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے( بغیر اجازت) جاری کیے گئے آڈیو سے بھی معلوم ہوتا ہے، جوڈیشل کمیشن کے چار اراکین نے چیف جسٹس کے نامزد امیدواروں کی حمایت نہیں کی تھی،اس لئے اجلاس کو پہلے سے طے شدہ کہنا اور ملتوی کئے جانے کا تاثر دینا بھی غلط ہے،جب جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو اجلاس درمیان میں ہی چھوڑ کر چلے گئے،آئین لازم کرتا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے کل اراکین کی اکثریت سے اعلیٰ عدلیہ میں نئے جج مقررکئے جائیں ،فاضل ججوں نے لکھا ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ سپریم کورٹ خالی پڑی ہے، اسے معذور نہیں چھوڑا جا سکتا ہے ‘‘چونکہ اس خط کی تصدیق جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں شریک باقی ارکان نے بھی کردی ہے اس طرح چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی پوزیشن بھی متنازع ہو چکی ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اب لازم ہوچکا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس فوری طور پر طلب کرکے سنیارٹی اور میرٹ کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں ججوں کی خالی اسامیاں پر کی جائیں۔ دوسری کوئی بھی صورت خود ادارے کے لیے سخت نقصان دہ ہوگی ۔ عالمی رینکنگ میں اس کا نمبر پہلے ہی 130 واں ہے۔ جب انتہائی قابل ، سنجیدہ اور پروفیشل صحافی بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس طرح ٹویٹ کرنے لگ جائیں تو جان لینا چاہئے خرابی حد سے گزرے گی نہیں بلکہ گزر چکی ہے ۔
’’خبر: اسحاق ڈار کی ہدایت پر ان کے وکیل نے سپریم کورٹ سے اپنی 2018 کی پٹیشن واپس لے لی۔ بنچ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پر مشتمل تھا۔ بنچ نے استفسار کیا کیوں پٹیشن واپس لینا چاہتے ہیں۔
تجزیہ: حیرانی پٹیشن واپس لینے پر نہیں استفسار پر ہے کہ پٹیشن واپس کیوں لے رہے ہیں۔