زنجیرنہ ٹوٹی مگر رہائی مل گئی

Asif Anayat, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

ویسے تو جب بھی اخبار دیکھیں درجنوں ایسی خبریں ہوتی ہیں جو قیامت کی علامتوں سے کم نہیں۔ بے روزگاروں کو روزگار دلانے کا چکمہ دینا وطن عزیز کے کاروبار میں سے ایک اہم کاروبار ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان لوگوں کو سب سے زیادہ وہ ادارہ جانتا ہے جس نے ان کی گرفت کرنا ہوتی ہے۔ یوں تو ہر ادارہ اپنے اختیارات اور ذمہ داریوں کی حدود میں ہونے والے جرائم سے واقف ہوتا ہے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ پورے کے پورے ادارے ملوث ہیں مگر کوئی لا علم بھی نہیں۔ واپڈا بجلی چور، سوئی گیس والے سوئی گیس چور، پولیس جرائم پیشہ، کسٹم سمگلروں، امیگریشن ایف آئی اے انسانی سمگلروں سے اور عدلیہ کی کیا بات کروں آج کل یو ٹیوب پر جناب حامد خان، سردار لطیف کھوسہ، علی احمد کرد صاحبان کی تقریریں سن لیں۔ کچھ خبریں کئی کئی سال انسانوں کو مضطرب رکھتی ہیں۔ انسانوں کو نہ کہ حکمرانوں کو کیونکہ ”حکمرانوں کی مجبوریاں ہوتی ہیں“جن کے متعلق مارکیٹ میں کتاب بھی آگئی ہے۔چند خبریں جو ناقابل فراموش ہیں مثلاً: فیصل آباد بیٹے کو بے کفن دفن کرنا اور بعد میں اہل علاقہ کا قبر کشائی کر کے غریب کے بیٹے کو کفن پہنانا، حسن زیب کی خود سوزی (حسن نثار بھائی کے متعدد کالم آئے) کرشن نگر میں پاگل گونگی لڑکی کے ساتھ زیادتی اور اس کا ایک رات چیخوں سے سڑک پر بچے کو جنم دینا (منو بھائی کے متعدد کالم ہیں)،بجلی کے بلوں کی ادائیگی پر بھائی بھائی کے قاتل ہو گئے، بجلی آنے پر موبائل پہلے چارج کرنے پر بگڑنے پر بھائی بھائی کے ہاتھوں ہلاک ہوا۔ مردے کھانے والے خاندان کا قبروں سے مردے نکال کر کھانا، لاشوں کی بے حرمتی کا کوئی شاید واضح قانون سرے سے موجود ہی نہ تھا یعنی آزادی سے پہلے اور بعد میں قانون سازی کرنے والوں کی اس طرف سوچ نہ گئی کہ لاشوں کی بے حرمتی اور ان کو کھانے کے جرائم بھی ہوں گے۔ وزیر آباد شاید ملزم کا نام نصیر تھانے قبرکشائی کر کے لڑکی کی لاش سے زیادتی کی، آج مینار پاکستان میں عورت سے پیش آنے والا واقعہ اور رکشہ پر جانے والی خواتین سے زیادتی ہم کدھر جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا سے ایسے جرائم لوگوں کے علم میں آ رہے ہیں ورنہ کسی کو بھنک بھی نہ پڑتی۔ اسلام آباد میں مرزا نامی شخص کی بکواس ہر گھر میں سنی گئی۔ یہ سب دلخراش داستانیں ہمارے معاشرے کی پہچان بن گئیں۔
موجودہ حکومت سوشل میڈیا، مین سٹریم میڈیا، پروپیگنڈا، وعدے، دعوے، اعلانات، الزامات، نفرت اور تمدن کی بربادی کے ساتھ اقتدار کے سنگھاسن پہ براجمان ہے۔ سابقہ حکومتوں پر بے پناہ ملبہ ڈالا جا سکتا ہے لیکن سب سے بڑا ملبہ یہ ہے کہ یہ حکومت ان کی وجہ سے چوائس بن گئی۔ہر سطح پر مجرمانہ ذہنیت سرایت کر گئی جبکہ دوسری جانب بیروزگاری، مہنگائی نے زندگی کو سزا میں بدل دیا۔ 
عمران خان کے دعوے تھے کہ یکساں نظام تعلیم ہو گا جو تعلیمی پالیسی آئی اس کے کیا کہنے اس پر لوگوں کے تحفظات ہی نہیں باقاعدہ فکر مندپائے 
گئے۔ ہمارا خیال تھا کہ غریبوں کے بچوں اور سرکاری سکولوں کو اپ گریڈ کر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے معیار پر لا کر تعلیمی معیار یکساں کر دیا جائے گا مگر حکومت نے معیار ہی نیچے کر دیا۔ میں پہلی کلاس سے انگریزی پڑھانے والے سکول میں پڑھا ہوں املا کا باقاعدہ ایک رجحان تھا تختی روزمرہ کا کام تھا۔ پھر سلیٹ نکلی مگر موجودہ دور میں  اساتذہ والدین سے اور والدین اساتذہ سے گلہ کرتے نظر آئے۔ فیس امیر آدمی کی پہنچ سے دور ہو گئی۔ بھارت میں انگریزی، ہندی اور دیگر زبانیں برابر چل رہی ہیں۔ اگر حکومت کوئی انقلاب لانا چاہتی ہے تو سرکاری سکولوں کو پرائیویٹ اور اعلیٰ سکولوں کا معیار دے مگر افسوس اس میں بھی سیاسی سکورنگ کی گئی کہ حافظ قرآن کیسے پڑھے گا؟ اللہ کا خوف ہو تو ذرا پتہ کرا لیں کہ کتنے ڈاکٹر، سرکاری افسر انگریزی سکولوں میں پڑھے۔ قرآن کے حافظ بھی ہیں۔ ایک لائن کی پالیسی کافی تھی۔ سرکاری سکولوں میں پرائیویٹ اور اعلیٰ سکولوں کا نصاب پڑھایا جائے گا۔ 
ڈیم کے 12 ارب جن میں 7 لاکھ رہ گئے ہیں۔ وہ سکولوں کو اپ گریڈ کرنے میں لگا دیتے۔ وزراء اور مشیروں کو پابند کیا جاتا کہ ان کے بچے 
سرکاری سکول میں پڑھیں گے تو معیار خود بخود بڑھ جاتا اور نصاب بھی یکساں ہوتا۔ یا پھر ہمت کریں اور بڑھتی ہوئی فیسوں کو بنیاد بنا کر تمام تعلیمی ادارے سرکاری تحویل میں لے لیں اور چونکہ ”دیانت دار“ ہیں معیار برقرار رکھیں۔ 
ارادہ تو تھا کہ کسی دوسرے موضوع پر لکھتا مگر جب اس خبر کی طرف دھیان گیا تو پھر کوئی موضوع نہ رہا۔ طالبان کیا کرتے ہیں، ان کی زنجیر ٹوٹی کہ دوسرے حصار میں آ گئے۔ یہ تو وقت طے کرے گا ابھی یہ خبر ملاحظہ فرمائیں: 
”بارڈر کراس کر کے غیر قانو نی طورپر بیرون ملک بہتر روزگار کی تلاش میں جانے والے 7 افراد میں سے 5 افراد بلوچستان ضلع چا غی کے صحرا میں پانی نہ ملنے پر جان کی بازی ہا رگئے(آگے ان مرنے والوں کے نام دیئے گئے ہیں)۔ ان سے سعید نامی ایجنٹ نے تفتان بارڈر پار کرانے کے 11 ہزار روپیہ کے بجائے 35 ہزار روپیہ فی کس مانگ لیے جس سے جھگڑا ہونے پر وہ کھانا لینے کے بہانے انہیں چھوڑ کر چلا گیا وہ رات اندھیرے میں صحرا میں بھٹکتے رہے۔ 6 اگست کو خلیق الرحمن کی طبیعت خراب ہو گئی اور وہاں سے گزرنے والے ڈالا والوں نے ترس کھا کر اسے نوکنڈی ہسپتال پہنچایا جہاں وہ جاں بحق ہو گیا۔ سجاد دل کامریض تھا وہ بے ہوش ہو گیا تو باقی افراد اسے کندھوں پر اٹھائے پھرتے رہے مگر اس نے بھی دم توڑ دیا اور وہ اس کی لاش پر پردہ ڈال کر پانی کی تلاش میں پھر سے چل پڑے اسی دوران وہ سمگلرز کے ہاتھوں چڑھ گئے وہ انہیں اپنے ڈیرہ پر لے گئے اور 3 دن پاس رکھ کر دوبارہ صحرا میں چھوڑ دیا جہاں وہ پانی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے مگر حافظ بلال نے بھی صحرا میں دم توڑ دیا اور پانی کی تلاش میں جانے والے باقی 2 بھی زندہ نہ رہ سکے صحرا سے گزرنے والوں نے حافظ بلال کی لاش سے کاغذات نکال کر ان کو سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا جس سے حافظ بلال کی شناخت ممکن ہو سکی اسے وہیں پر دفن کر دیا گیا ہے۔ رانا محمد زاہد نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ سعید نامی ایجنٹ کے خلاف قانونی کارروائی کر کے انہیں انصاف فراہم کرے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ 7 افراد میں سے 5 افراد انتقال کر گئے جبکہ 2 افراد کا پتہ نہیں چل سکا ہو سکتا ہے وہ واپس پہنچ گئے ہوں“۔ 
کہاں ریاست مدینہ میں دریا کے کنارے کتا پیاسا مر جائے تو حاکم ذمہ داری لیتا تھا اور آج ”ریاست مدینہ“ کے دعویدارو رزق کی تلاش میں انسان صحراؤں میں پیاسے مر رہے ہیں۔ آپ کا دعویٰ تو تھا کہ یورپ اور بیرون ممالک سے لوگ پاکستان میں نوکری کرنے آئیں گے اور کہاں ایران داخلہ چاہنے والے موت کی وادی میں اتر گئے۔ حکمرانو! طالبان نے زنجیر توڑی مگر ان بے روزگار وں کی زنجیر تو نہ ٹوٹی تاہم زندگی سے رہائی پا گئے۔