کوئی تو شرم کر لے

کوئی تو شرم کر لے

آج جمعہ مبارک صبح آفس جانے سے پہلے حسب معمول والدہ محترمہ کی قبر پر حاضری کے بعد ابو جی کی قبر پر گیا تو واپسی پر اْن کی بہت سی یادیں میری ہم سفر ہو گئیں، وہ چٹے ان پڑھ تھے مگر اْن کی فہم و فراست، اْن کی دانش پر میں کئی کتابیں لکھ سکتا ہوں، میں اکثر سوچتا ہوں یہ جو روزانہ اپنے کالموں میں سیاست کی گندگی پر لکھ لکھ کے اپنا وقت ہم ضائع کرتے ہیں، کیا ہی اچھا ہو یہی وقت کسی اچھے کام کے لئے ہم وقف کریں، اپنے بزرگوں کی خوبصورت یادوں اور باتوں پرہم لکھیں، تاکہ نئی نسل ”عمرانیات“ سے آہستہ آہستہ نجات حاصل کر کے ایک بار پھر”دینیات“ کی طرف جائے، ویسے یہ ہے بڑا مْشکل کام کیونکہ لوگوں کو سیاست کی گندگی میں منہ مارنے کا اس قدر چسکا پڑ گیا ہے کسی اچھے موضوع پر ابتدائی دو چار لائنیں پڑھ کر یا سْن کر وہ منہ موڑ لیتے ہیں۔۔ والد صاحب فرماتے تھے ”بیٹا اپنی عزت آبرو اپنی انا کو ہمیشہ مقدم رکھنا، زندگی میں سب سے بڑی دولت صحت ہے پھر عزت ہے، یہ چلی جائیں پیچھے کچھ نہیں بچتا، مگر چار لوگوں کے سامنے ہمیشہ جْھک کے رہنا اْن کا ہمیشہ آدب کرنا ہے، اْن کے آدب میں اگر تمہاری عزت آبرو انا کو تھوڑی ٹھیس بھی پہنچ جائے پروا نہ کرنا، اْن لوگوں میں سب سے پہلے اساتذہ کا مقام ہے پھر والدین کا اْس کے بعد بزرگوں کا (جو عمر میں آپ سے بڑے ہوں) اور پھر محسنوں کا (جنہوں نے زندگی میں آپ پر کوئی احسان کیا ہو)۔۔ سو میں نے اب تک کی اپنی زندگی والد محترم کے اس سبق اور ان اشعار کی روشنی میں گْزارنے کی کوشش کی 
نہ جانے ہونا ہے کیا اور کیا نہیں ہونا 
مگر یہ طے ہے کہ قتل انا نہیں ہونا 
میں اپنے حبس میں مر جاؤں گا مگر مجھ کو 
گلی گلی میں بھٹکتی ہوا نہیں ہونا 
دوسری بات والد محترم یہ فرماتے تھے ”اگر کسی شخص کی تربیت اور نسل کا پتہ چلانا ہو یہ دیکھنا چاہئے اْس کا دوست کتنا پرانا ہے اور اْس کا خدمت گزار کتنا پْرانا ہے“۔۔ ہمیں ”ملازم“ کہنے کی اجازت نہیں تھی والد صاحب کا حکم تھا”خدمت گزار“ کہا کریں، ملازم یا نوکر کہنے میں تکبر ہے۔۔ ہمارے بزرگوں یا بڑوں کے ان اقوال کو ماضی قریب میں جس طرح”توشہ و شوشہ خان“ نے ٹھیس پہنچائی اْس کی مثال نہیں ملتی، لوگوں کو اْلو بنانے والا وزیراعظم بن گیا، لوگ سمجھ رہے تھے اْس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے اصل میں قدرت نے اْس کی رسی دراز کی ہوئی تھی، اب قدرت کی وہ پکڑ میں ہے، اللہ اْسے ہدایت دے اور ٹھیک ٹھاک دے، معاشرے میں اخلاقیات کو جس بھونڈے انداز میں اْس نے روندا اْس پر اہل غیرت جتنا ماتم کریں کم ہے، عدم برداشت اور گالم گلوچ کے کلچر کو فروغ دینے میں جو حصہ اْس نے ڈالا تاریخ اْس پر ہمیشہ روتی رہے گی، دْکھ اس بات کا ہے یہ کام پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی آڑ میں اْس نے کیا، پہلے لوگوں کو”تبدیلی“ کا جھانسہ دیا پھر سو دنوں میں سسٹم ٹھیک کرنے کے ٹرک کی بتی پیچھے لگائے رکھا، چوروں اور ڈاکوؤں سے نجات دلانے کے دعوے کرتا رہا اور ایسی گندی حکمت عملی اختیار کی چوروں ڈاکوؤں سے نجات کیا ملنی تھی اْلٹا وہ دوبارہ ہم پر مسلط ہو گئے، پھر”امریکی سازش“ کو بیچ میں لے آیا، کچھ عرصہ اس بیانیے کی وہ کمائی کھاتا رہا، پھر امر بالمعروف یاد آگیا، کیسے کیسے دھوکے لوگوں کو اس شعبدہ باز نے دئیے، کس قدر بدقسمت اور بدبخت انسان ہے دْنیا میں شاید ہی کوئی ایک شخص ہوگا جو دل سے یہ کہہ سکے وہ اْس کا دوست ہے، سوائے اپنے مفاد کے وہ کسی کا دوست نہیں، کوئی ایک دوست اْس کا ایسا نہیں جو دل پر ہاتھ رکھ کے یہ دعویٰ کر سکے اْس پر کوئی مشکل وقت آیا اور یہ”توشہ و شوشہ خان“ اْس کے کسی کام آیا ہو یا ساتھ کھڑے ہوا ہو۔۔ جہانگیر ترین سے لے کر علیم خان تک اور علیم خان سے لے کر عون چودھری تک سب کو فطری طور پر اْس نے ڈنک مارے، سب کے خلاف سازشیں کیں، اْن کا قصور صرف یہ تھا وہ اْس کے ساتھ مخلص تھے، اْس کی حکومت بنانے میں ان سب کا کردار بہت اہم تھا، اْن کے علاوہ بھی مخلص لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہیں اپنے مقاصد کے لئے اْس نے استعمال کیا اور پھینک دیا، میری نظر میں وہ سب خوش قسمت لوگ ہیں جنہیں قدرت نے اس سانپ کو مزید دودھ پلانے سے روک دیا۔۔ اب جو گندی آڈیوز اْس کی وائرل ہو رہی ہیں گھر گھر کی کہانی بنی ہوئی ہیں اْسے تو کوئی فرق شاید نہ پڑے، ہمارا شرم سے ڈوب مرنے کو جی ضرور چاہتا ہے کیسے گھٹیا کردار کی برس ہا برس حمایت ہم کرتے رہے۔۔ کل میرا ایک دوست مجھے بتا رہا تھا وہ شرم سے پانی پانی ہوگیا جب اْس کے نو سالہ بیٹے نے اْس سے پوچھا”ابو آپ نے عمران خان کی آڈیوز سْنی ہیں“ ابو منہ چْھپا کے بغیر جواب دئیے کمرے سے باہر نکل گئے۔۔ یہ شخص تو ہے ہی جنم جنم کا بے حیا مگر تقریباًاْسی طرح کی خصلت رکھنے والے جو لوگ اْس کی آڈیوز لیک کر رہے ہیں یا کچھ وڈیوز لیک کرنے والے ہیں اْن کی خدمت میں ہاتھ باندھ کے گزارش ہے کچھ شرم آپ ہی کر لیں، معاشرہ پہلے ہی بداخلاقی کے بدترین مقام پر ہے، رشتوں کے تقدس کی پامالی اپنے عروج پر ہے اس سے زیادہ مزید کیا گند آپ ڈالنا چاہتے ہیں؟  دْکھ اس بات کا ہے ان آڈیوز میں جو غلیظ زبان استعمال کی گئی ہے کاش اسے وہ کور ہی کرلیتے، اْسی زبان سے پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی باتیں وہ کرتا ہے، میں نے پچھلے کالم میں بھی عرض کیا تھا اْس کی جو آڈیوز اور وڈیوز”قیامت کی نشانیاں“ سمجھ کر ہم دیکھ چکے ہیں اللہ نہ کرے وہ منظر عام پر آئیں، اخلاقی طور پر تھوڑا بہت سرمایہ ہمارے پاس جو بچا ہوا ہے وہ بھی تباہ و برباد ہو جائے گا۔۔ اْس کے”پیروکار“ خاص طور پر”قوم یْوتھ“ اب مؤقف یہ اختیار کرتی ہے”یہ آڈیوز ٹوٹے جوڑ جوڑ کر بنائی گئی ہے“۔۔ یہ واقعی”ٹوٹے“ ہیں، اگر یہ جعلی ہیں توچھوٹی چھوٹی باتوں پر عدالتوں کا سہارا لینے والے یوتھئے اور اْن کا لیڈر کسی عدالت میں کیوں نہیں جاتا کہ اْس کی حالیہ کردار کشی کا نوٹس لیا جائے اور حکومت کو اْن آڈیوز کے فرانزک کا حکم جاری کیا جائے۔۔ جتنے لوگوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے اْس نے استعمال کیا، اْن کی کمائی کھا کر اْنہیں ذلیل کرنے کی کوشش کی اْن سب کی بدعائیں کسی نہ کسی گندی آڈیو اور وڈیو کی صورت میں قدرت اب سامنے لا رہی ہے، بڑی بددعائیں اللہ نہ کرے بڑی وڈیوز کی صورت میں لیک ہوں، اس شخص کو تو شرم کوئی آنی نہیں، کہیں ہم لوگوں کے یہ طعنے سْن سْن کر  مارے شرم کے خود کشی کرنے پر مجبور نہ ہو جائیں کہ کتنے گھٹیا شخص کی حمایت ہم کرتے رہے، جہاں تک اْس کے حالیہ حمایتیوں کا معاملہ ہے ان گندی آڈیوز سے اْنہیں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اْس کے ساتھ جْڑی ہوئی اکثریت اسی قماش کی ہے، اْن کے اپنے گھروں کا کلچر بھی شاید اسی طرح کا ہے، البتہ شرم و حیا والے کچھ لوگ جو اْس کے ساتھ جْڑے ہوئے ہیں وہ یہ سوچ سوچ کر بے حال ہوئے جاتے ہیں یہ گندی آڈیوز یا متوقع وڈیوز کسی نہ کسی ذریعے سے اْن کے بچوں یا ماؤں بہنوں تک پہنچ گئیں وہ کیا سوچیں گے کیسے کیسے بے شرم یہاں حکمران رہے، ہیں اور آئندہ بھی شاید رہیں گے۔