فطرتیں کردار کاروبار بننے لگے

فطرتیں کردار کاروبار بننے لگے

یہی انسانی تاریخ کا ارتقا اور یہی المیہ رہا ہے کہ فطرتیں، جبلتیں کردار اور کاروبار میں بدلتے چلے گئے۔ کردار سے مراد معاشرت میں اپنانے یا ملنے والا کردار ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں منافقانہ روش یہ آئی کہ بظاہر اپنایا گیا کردار حقیقی کردار کے بالکل برعکس ہونا شروع ہوا گویا اچھے بھلے لوگ بہروپیئے کا روپ دھارنے لگے۔ انسان کی سوچ آفاقی ہو سکتی اس کا کردار آفاقی ہو سکتا ہے مگر بات اس کو سیاق و سباق کے حوالے سے ہی کرنا ہو گی۔ اب تو نہیں ہو سکتا کہ کوئی وکالت پاکستان میں کرے اور مثالیں یورپ امریکہ اور کینیڈا کی دے۔ ججز یہاں کے ہوں اور بات ان ممالک کے ججز کی کریں۔ یہی حالت سیاستدانوں کی ہے، اقتدار کے تمام ایوانوں کی ہے۔ بظاہر ملے ہوئے کردار اور حقیقی اظہار بالکل بہروپیئے بنا دیتا ہے۔ آج مجھے اپنا ہی ایک پرانا لکھا ہوا کالم یاد آ گیا ”انسانوں جیسے لوگ“۔ جس میں مجھے یاد ہے کہ کچھ یوں تھا۔۔۔ انسان کو بھی قدرت نے کیا خوبصورت شاعری کی شکل دی ہے جس کو پڑھنے اور سمجھنے والا اپنی بصیرت سے ہی دیکھتا اس شاعری کا مقطع انسانی ذہن ہے جو خود بخود کسی نقطہ پر کلک کرتے ہی نہ جانے ماضی حال اور مستقبل کے دریچوں کو بیک وقت کھول دیتا ہے۔ لہٰذا یہی ہوا اور وطن عزیز میں حالات کا منظر نامہ ذہن و نظر میں گھوم گیا عدالت و عداوت، وکالت و صحافت، عبادت و منافقت، ریا و حیا، سیاست و ثقافت، معاشرت و معیشت، حرب و محبت، بسیار خوری سے بھوک آدم خوری تک کے مناظر نہ جانے کیا کیا دل و دماغ کو بے بس کرنے لگے۔عمرانی علوم کا ہر نظریہ و نظام جس میں صدارتی، پارلیمانی، ڈکٹیٹرشپ بھی شامل ہیں ہم سب دیکھ چکے، ہمارے ہاں عدلیہ انتظامیہ مقننہ، افواج کے 
اکابرین بھی ہیں اور ان سب کی غلامی کے لیے حاضر اور ان کی تفریح طبع و حکمرانی کے دوام کے لیے رعایا اور عوام بھی۔ صدیوں سے ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے ادارے بھی ہیں قوانین اور نظام بھی ہے جو انسانوں نے دیگر جانداروں سے ممتاز ہونے کے لیے قائم کیے کہ اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت دے سکیں اور فرض پورا کر سکیں، پھر خیال آیا کہ کیا وجہ ہے یہی نظام ایسے ہی ادارے ایسے ہی قوانین اور ایسے ہی افراد دیگر گورکھ دھندہ ممالک میں انسانیت کی اعلیٰ مثالیں اور تاریخ رقم کیے جا رہے ہیں جبکہ ہماری ہاں وحشت و بربریت برہنہ محو رقص اور انسانیت ماتم کناں ہے۔ پھر مزید ڈپریشن اور سوچوں میں ڈوبے ہوئے اس ملک کے بے بس باسی کو اس خیال نے سہارا دیا کہ دراصل ہم پرتھوی راج ہیں اکبر بادشاہ نہیں، ہم دلیپ کمار ہیں دیوداس نہیں، ہم نصیرالدین شاہ ہیں مرزا غالب نہیں، ہم گرداس مان ہیں وارث شاہ نہیں، ہم انتھونی کوئن ہیں امیر حمزہ نہیں، ہم زیادہ سے زیادہ جج صاحبان ہیں جسٹس رستم کیانی نہیں، وکلا صاحبان ہیں خواجہ جاوید نہیں، ہم فتویٰ اور فرقہ فروش ہیں مولانا نہیں، مسیحائی فروش ہیں میو برادران نہیں، میر صاحب ہیں میر خلیل الرحمن نہیں، ہم فاروق حیدر مودودی ہیں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نہیں، ہم حامد میر ہیں وارث میر نہیں، شیخ رشید ہیں شیخ سعدی نہیں، بیکن ہاؤس سکول جیسے اداروں کے مالک ہیں سر سید احمد خان نہیں، ہم زرداری ہیں بھٹو نہیں، ہم انسانوں جیسے اور انسان نما ہیں انسان نہیں، ہم ڈرامہ ہیں حقیقی نہیں، بس نقال ہیں۔ ہماری حرکات و سکنات اور خوراک و پوشاک بھی انسانوں جیسی ہے مگر اظہار ذات ویسا نہیں۔ ہماری ہیئت و زبان بھی انسانوں جیسی ہے مگر افکار و عمل نہیں۔ ہم عوام جیسے ہیں مگر عوام نہیں، ہم ریوڑ ہیں خود مختار نہیں، ہم آزاد قوم ہیں مگر آزاد نہیں، ووٹر ہیں صاحب الرائے نہیں، ہم 23 کروڑ ہیں لیکن ہم وطن نہیں۔ ڈاکٹر علی شریعتی نے کہا کہ کوئی گہری نیند سو رہا ہو تو اس کو جگایا جا سکتا ہے، بولنے پکارنے ہلانے جلانے سے کوئی نیند سے جاگ جاتا ہے لیکن اگر در و دیوار ہل جائیں، زمین پھٹ جائے، چھت گر پڑے مگر نیند سے نہ جاگے تو یقین کر لینا چاہیے کہ یہ نیند نہیں جس سے جاگا جا سکے۔ یہ تو موت ہے اور موت کی نیند سونے والوں کو کوئی نہیں جگا سکتا۔ مینار پاکستان سے کود جانے والے کیلئے زندگی کی دعا قدرت اور فطرت کو امتحان میں ڈالنے والی بات ہے۔ پھر بھی قدرت ہم پر ہمیشہ مہربان رہی کہ ہمیں ہر بار موت کے بجائے معجزانہ زندگی عطا کی مگر ہم بھی کمال لوگ ہیں دوسری اقوام عالم پر تو آزمائش اور مصیبتیں آتی ہیں مگر ہم نے قدرت کو آزمائش اور مصیبت میں مبتلا کر رکھا ہے ہم ہر پل ہر لمحے گود سے گرتے ہیں۔ ہم ایسے فنکار ہیں کہ لمحہ بھر بھی حقیقت میں نہیں گزارتے۔ پھر بھی پُر امید ہوں مایوسی کی کوئی بات نہیں جہاں انسانوں جیسے اور انسان نما لوگ ہیں وہاں فرشتوں جیسے لوگ اور درد مند انسان بھی ہیں۔ بس ہوش و حواس کی زندگی کے 40 سال میں دیکھا اور تاریخ میں سیاست، صحافت، عدالت، اقتدار کے ایوانوں، مسلک اور درگاہوں کے قابضین میں کاروبار ہی دیکھا ہے۔ جج بھی کاروبار، ملزم بھی کاروبار، سیاست بھی کاروبار، فالوورز بھی کاروبار ہے۔ ہر کردار، ہر فطرت، ہر رشتہ کاروباری صورت اختیار کر گیا۔ لوگ خواہ مخواہ جھگڑ رہے ہیں۔ وطن عزیز میں ڈاکٹر بھی کاروبار اور مرض بھی (اللہ معاف کرے) کاروبار، قیدی بھی کاروبار اور اہلکار بھی۔ معاشرت کی اکثریت اور انتہائی اکثریت بہروپیئے بن گئے، سچ ناپید اور جھوٹ آلودگی سے زیادہ ارزاں ہو گیا۔ حکومتوں کی ٹوٹ پھوٹ بناؤ بگاڑ کو دیکھتے زندگی بیت چلی، سب کاروباری ہیں لہٰذا اپنوں کو ان نوسربازوں کے چکر میں آ کر نہ کھو دیں۔