پروین شاکر: دست بستہ شہر میں کھولے میری زنجیر کون

پروین شاکر: دست بستہ شہر میں کھولے میری زنجیر کون

پاکستان میں 1970ء کی دہائی کے آغاز سے لے کر وسط تک کا زمانہ سماجی، سیاسی، معاشی اور فکری کشمکش کا دور تھا جسے جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق کی دو فوجی آمریتوں کے درمیان ایک وقفہ یا بر یک کہا جا سکتا ہے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی عروج وزوال کا دور تھا جس میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں جدو جہد اور نئی راہوں کی تلاش کا سفر بڑی تیزی سے چل رہا تھا۔ اس دور میں اگر ہم شعر و ادب کے قومی افق پر نظر دوڑائیں تو یہ شعبہ اپنے چوٹی کے شعراء وادباء سے لبریز تھا مگر اس میں خواتین شعراء کا تصور خال خال تھا اس لیے جب 1976ء میں خوشبو کے نام سے چھپنے والی پروین شاکر کی پہلی شعری کاوش منظر عام پر آئی شاعری میں خواتین کی قحط سالی کے اس دور میں اس کتاب نے قومی ادبی افق کو چونکا کے رکھ دیا۔ خوشبو کی ابتدائی غزلوں میں شاعرہ کی جو سب سے پہلی غزل شہرت کی بلندیوں پر پہنچی وہ آج بھی سب کو یاد ہے۔
کوبہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
خوشبو کے اس سفر کی رفتار اتنی تیز تھی کہ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ بک گئی۔ غزل کے شوقینوں نے اسے اپنے لیے نسخہ کیمیا سمجھ کرحفظ کر لیا اور اس کی بازگشت حکومت کے ایوانوں پر دستکیں دینے لگی تو اسی سال محترمہ پروین شاکر کوحکومت پاکستان کی جانب سے اردو شاعری میں پرائیڈ آف پر فارمنس پر ان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ شاعری پر ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا گیا اور پہلے ہی سال دیا گیا۔ اس کے بعد صد برگ، خود کلامی، انکار اور کف آئینہ جیسے پے در پے شعری مجموعوں نے پروین شاکر کو ایسے مقام پر لا کھڑا کیا جس تک پہنچنا بعد میں آنے والی شاعر اؤں کے لیے مشکل ہے۔ ان کی شاعری کا دوران کے زندگی کے خاتمے کے ساتھ اختتام پذیر نہیں ہوا بلکہ ربع صدی گزرنے کے بعد اب بھی جاری ہے۔ پروین شاکر نے صرف 42 سال عمر پائی اور دسمبر 1994ء میں اسلام آباد میں ایک حادثے میں جاں بحق ہو گئیں مگر اپنی مختصر زندگی میں انہوں نے اردو شاعری کو ایک بہت بڑا خزانہ عطا کیا جو ایک ادبی ورثہ ہے۔ انہوں نے انگریزی میں ایم اے کیا جس کی وجہ سے ان کی شاعری مشرقی و مغربی ادب کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔ پروین شاکر نے اپنی 
شاعری کے ذریعے اردو شاعری سے مرد شعراء کا تسلط ختم کر دیا اور اس کے بعد کا دور خواتین شعراء کے لیے ایک تحریک بن گیا جس میں پروین شاکر کی ذات سب سے بڑی inspiration تھی آج بھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ اچھی لکھنے والی شاعرہ کو پروین شاکر سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ پروین شاکر نے شاعری میں عورت کے ان جذبات کی ترجمانی کی ہے جو اس سے پہلے عورت کی نمائندگی میں مرد شعراء کی طرف سے پیش کیے جاتے تھے۔ 
ان کی شاعری میں انسانی رشتوں میں ہونے والی شکست وریخت کا پیچیدہ اور تکلیف دہ عمل اندر سے ٹوٹنے کی یوں ترجمانی کرتا ہے:
تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں 
اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں 
اس کیفیت کے بے ساختہ اظہار کے لیے انہوں نے ایک اور شعر میں اس سے بھی آگے بڑھ کر محبوب کی بے حسی اور بے وفائی کو کچھ یوں بیان کیا ہے: 
وہ تو جاں لے کے بھی ویسا ہی سبک نام رہا 
عشق کے باب میں سب جرم ہمارے نکلے
حب الوطنی اور مٹی سے محبت کا قرض اتارنے کے لیے پروین شاکر کا بڑا مشہور شعر ہے: 
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہ ہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
اس غزل کا اگلا شعر اپنے اندر عشق و محبت کی لازوال داستان کا ایک نیا مفہوم رکھتا ہے جس میں مصنفہ نے اپنی ذات کی نفی میں آخری حد کو چھوتے ہوئے لکھا ہے: 
خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے 
وہ رویہ جو ہوا کا خس و خاشاک سے ہے
محبت کے اظہار اور کسی کی جدائی میں اسے یاد کرنے کے جذبات اور اس پر موسم کی در اندازی کو پروین شاکر سے بہتر کوئی بیان نہیں کر سکتا: 
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا تیرا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
پروین شاکر کی شاعری کے بارے میں ایک عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ اس کی شاعری کی سب سے زیادہ پذیرائی مردوں کی طرف سے ہوئی یہ بات جزوی طور پر درست مانی جا سکتی ہے وہ بھی اس حد تک کہ پروین سے پہلے صنف نازک کی طرف سے صنف مخالف کے بارے میں مہرو محبت کے جذبات کی عکاسی بھی مردانہ شاعری سے ہی ہوتی تھی پروین شاکر کو اس لیے بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا کہ وہ خواتین کی نمائندہ شاعرہ قرار پائیں۔ 
پروین شاکر کی شاعرانہ پرواز ایسے وقت ہوئی جب ٹیلی ویژن کی مقبولیت کی وجہ سے مشاعروں کی نئی جہت عطا ہوئی۔ اس سے پہلے سامعین مشاعروں کو سنتے تھے اب مشاعرہ دیکھنے کی رسم چل پڑی پروین شاکر کو چونکہ افکار اور آواز کے ساتھ ساتھ ظاہری خوبصورتی بھی ایک عطیہئ خداوندی تھی لہٰذا اس کے مداح یہ فیصلہ نہیں کر پاتے تھے کہ ان کے اشعار اور ان کے چہرے اور ان کے دل تینوں میں سب سے زیادہ خوبصورت کون سی شے ہے۔ 
پروین شاکر کا دور سماجی و اقتصادی افراتفری کا دور تھا جس میں مال و زر کو ایک معبود کا درجہ حاصل تھا جبکہ دوسری جانب انسانوں کے اندر اور باہر کا تضاد گزشتہ زمانوں سے بڑھ کر تھا ان کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
کیا جان کے خسارے کی تمنا ہو کے اب عشق 
بڑھتا ہی نہیں درہم و دینار سے آگے
گھمسان کا رن جیت کر لب بستہ کھڑی ہوں 
میں پشت سے آئے ہوئے اک وار کے آگے
ان کے آخری ایام کی شاعری میں ایک خوبصورت شعر کچھ یوں ہے:
مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی 
میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں 
سال نو کی مناسبت سے پروین کا یہ شعر آج بھی نئے سال کے موقع پر پروین کی یاد دلاتا ہے: 
کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
پروین کی ایک غزل جوان کی اپنی زندگی کی عکاسی کرتی ہے جس میں وہ رشتوں کی بے اعتنائی پر سراپا احتجاج ہیں: 
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا
اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر تیرا کیا حال کر دیا
مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا