انسانوں میں بندروں جیسی سوچ!

انسانوں میں بندروں جیسی سوچ!

اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مختلف اور جداگانہ صلاحیتیں دے کر پیدا کیا تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی سر زمین پر گھوم پھر کر اس کا فضل تلاش کر سکے۔اس کی خدائی کو پہچان کر اس کا شکر ادا کرے اور سب سے بڑھ کر اس کی مخلوق کو فا ئدہ پہنچا سکے۔لیکن اگر ہم اپنے ارد گرد کا بغور مشاہدہ کریں تو بہت سی تلخ حقیقتیں ہمارے سامنے آتی ہیں جن میں سب سے پہلے توہم اس بات سے واقف ہوتے ہیں کہ ہم خدا کے نظام سے بالکل اُلٹ چل رہے ہیں اور جس کا نتیجہ ہم بھگت بھی رہے ہیں ۔یہاں پر میں بات کروں گا تقلید کی ۔ یعنی جدھر کی ہوا اُدھر کا رُخ۔اچھی بات کی تقلید کرنا اچھی بات ہے لیکن کسی کے پیچھے چلنے سے پہلے یہ ضرور تحقیق کر لینی چاہیے کہ ہمارے لیے یہ چیز مفید ہے کہ نہیں۔ہماری مثال بندروں کی طرح ہے آپ کبھی جنگل جائیں بندروں کا مشاہدہ کریں یا اگر جنگل جانا ممکن نہیں تو چڑیا گھر ہی چلیں جائیں۔
آپ دیکھیں گے کہ بندر وہ ہی کرتے ہیں جو اُن کا ساتھی کرتا ہے اگر ایک بندر شور کرنے لگتا ہے تو سب شروع ہو جاتے ہیں۔چا ہے اُس کے پیچھے کوئی مقصد ہو یا نا ہو۔

چلیں وہ تو ایک جانور ہے سمجھ میں آتا ہے مگر ہم تو انسان ہیں اشرف المخلوقات ۔ہمیں کیا ہو جاتا ہے۔ہم کیوں اپنی عقل استعمال نہیں کرتے۔ ہمارے معاشرے میں سب کا یہ ہی حال ہے اگر ایک گھر میں والد صاحب ڈاکٹر ہیں تو ابسب بچوں کو زبردستی ڈاکٹر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ ڈاکٹر بن بھی جاتے ہیں لیکن ضروری تو نہیں کہ وہ بھی اُتنے ہی کامیاب ہوں۔جتنے کہ اُن کے والد۔اُن کی صلاحیتوں کو یا اُن کی خواہش کو جانچنے کی کوشش کی گئی؟ہو سکتا ہے وہ زندگی کے کسی اور شعبے میں اپنا نام بنانے میں زیادہ کامیاب ہوتے۔اسی طرح میں نے اپنے کزن سے پوچھا تم نے انجینیرنگ میں داخلہ کیوں لیا تو اُس کا جواب یہ تھا کہ سب دوست لے رہے تھے تو میں نے بھی لے لیا۔میں نے پو چھا کہ تمھاری خود کی دلچسپی کیا ہے کیا کرنا چاہتے ہو تو جواب میں بس خاموشی ۔ایک وقت تھا جب اس ملک میںآئی ۔ٹی کی تعلیم کا شور ہوا تو ہر شخص اس کے پیچھے بھا گنے لگا بغیر یہ سوچے سمجھے کہ یہ اس کے لیے بہتر بھی ہے کہ نہیں ۔اس کی صلاحیتیں اس قابل بھی ہے یا نہیں۔ہر طالب علم کی یہ خواہش ہے کہ وہ ڈاکٹر یا انجینیر بن جائے پو چھو کیوں تو جوابیہ ملتا ہے کہ اچھا کمائیں گے۔یعنی تعلیم اب صرف پیسہ ،عہدہ اور رتبہ کمانے کے لیے حاصل کی جاتی ہے۔ہمارے ملک میں نہ تو کوئی ایساادارہ ہے اور نہ ہی گھروں میں ایسا کوئی انتظام کہ جس کے ذریعے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کے مطابق اپنی راہ کے انتخابمیں مدد دی جا سکے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ ہم تعلیم حاصل کرنے کے با وجود جاہل ہیں ہمارے اندر اخلاق نام کی کوئی چیز نہیں ۔ہماری تعلیم تربیت کے بغیر ہے۔ہم کسی کو اپنی ذات سے فائدہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ہم میں اور جانورں میں کوئی فرق نہیں ۔

ایسے منظر آپ نے کئی مرتبہ دیکھے ہوں گےکہ سڑک پر کئی لوگ مل کر کسی ایک شخص کو مار رہے ہوں گے اور سیکڑوں تماشہ دیکھ رہے ہوں گے پیچھے ایک ٹریفک جام ہوگا نہ مارنے والوں کو احساس ہو گا نہ جمگھٹا لگانے والوں کو کہ اُن کی وجہ سے کتنے لوگ تکلیف میں مبتلا ہیں ۔اسی طرح مارنے والوں سے پوچھو کہ بھا ئی کیوں مار رہے ہو تو جواب ہوتا ہے کہ پتہ نہیں یقیناً یہ چو ر ہو گا سب ما ر رہے ہیں اس لیے میں نے بھی مارا۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا ہم میں اور جانورں میں کوئی فرق نہیں ہمیں کس نے حق دیا کہ ہم خود ہی فریادی خود ہی منصف اور خود ہی جلاد بن جائیں۔

ہمیں اس سسٹم کو بدلنا ہو گا ۔نوجوانوں کو آگے آنا ہو گا اپنا کردار نبھانا ہو گا ۔

اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہو گا ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ہمیں لوگ بندر عوام کہنے لگیں۔


سہیل رضا تبسم کراچی کی نجی یونیورسٹی میں لکچرار ہیں،اردو میں  کالم اور بلاگ بھی لکھتے ہیں        


انکا ای میل sohail_tabbassum@hotmail.com