اک عہد تمام ہوا۔۔۔۔ منو بھائی بھی چل دیئے

اک عہد تمام ہوا۔۔۔۔ منو بھائی بھی چل دیئے

دل مغموم روح گھائل ہے جب سے منو بھائی کے سانحہ ارتحال کی خبر سنی دل کے دریچے غم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ منو بھائی کی شاعری،کالم اور گفتگو انتہائی سادہ اورعام فہم تھی جس میں وقت کے فرعونوں کو للکار، عام آدمی کے مسائل کا ذکر اور سویلین بالادستی جمہوریت کی مضبوطی کا پیغام ہوتا تھا۔ راولپنڈی کے تعمیر اخبار میں اپنے صحافتی کیر یئر کی پہلی اینٹ لگانے والے منیر قریشی نے منو بھائی کے نام سے شہرت پائی ۔سات سات انیس صد سترمیں مساوات کے پہلے چیف رپورٹر بننے والے منو بھائی جہاں ترقی پسند شاعر محنت کشوں کی آواز تھے وہیں صحافت میں یونیورسٹی کی حیثیت رکھتے تھے منو بھائی نے صحافتی کیرئیر کے دوران کالم نگاری تک کے سفر میں پروف ریڈنگ، سب ایڈیٹنگ اور رپورٹنگ میں بھی اپنی قابلیت کے جوہر دکھائے ۔


ہمہ جہت صفات کی حامل شخصیت منو بھائی سے شناسائی اور وجہِ محبت میرے مربی واصف علی واصفؒ تھے میں نے جب دل دریا سمندر،حرف حرف حقیقت، قطرہ قطرہ قلزم، گفتگو ،، سمیت واصف صاحب کی تصانیف اور گفتگو سنی اور پڑھی تو ان میں منو بھائی، حنیف رامے ،اشفاق احمد کا نام متعدد بار سامنے آیا۔ وزیر آبادکے سپوت منو بھائی سے کسی نے پوچھا کہ تھیلیسیما کے مریض بچوں کا آپ مفت علاج کرتے ہیں اس سلسلے میں آپ کا ادارہ سندس فاونڈیشن انتہائی جانفشانی کے ساتھ کام کررہا ہے جبکہ اس کا ریوارڈ کچھ نہیں نہ تو آپ کسی مریض سے کچھ لیتے ہیں اور نہ ہی آپکا ادارہ اخراجات کی ڈیمانڈ مریضوں سے کرتا ہے آپ یہ سب کیوں اور کیسے کررہے ہیں ایک خوبصورت انسان نے کیا خوبصورت جواب دیا کہ سندس فاونڈیشن کا حکم مجھے واصف صاحب نے دیا مجھے ان کاحکم تھا کہ میں کوئی ایسا ادارہ قائم کروں جہاں خون کی بیماریوں میں مبتلا بچوں کا فی سبیل اللہ علاج کروں۔ میں نے تعمیل ِ حکمِ واصف میں سندس فاونڈیشن ادارہ قائم کیا اس کے ریوارڈ کی آپ نے بات کی اس کا ریوارڈ یہی ہے کہ جب تھیلسیما کے مریض بچوں کو خون لگتا ہے تو چند دن کیلئے ان میں زندگی کی چہک، بہک، رمک امڈ آتی ہے بچے اٹکھیلیاں کرتے ہیں اچھلتے کودتے ہیں ان لمحوں میں ایک کونے میں بیٹھ کر چھپ کر ان کی معصومانہ شرارتیں دیکھتا ہوں اور میرے نزدیک میری جنت یہی ہے کہ میں مریض اور غریب بچوں اوران کے خاندانوں میں خوشیاں بانٹ رہاہوں۔ یہ بات واصف شناس قبیلے کے علم میں تو ہے مگر پھر بھی کم لوگ جانتے ہیں کہ منو بھائی واصف علی واصف ؒ کے ہم شکل تھے چہرے کے خدوخال دو دوستوں میں غیر معمولی مشابہت رکھتے تھے جب ایک دن منو بھائی نے کہا کہ واصفؒ صاحب آپ سے مشابہت کا مجھے کئی بار یوں بھی فائدہ ہوا کہ میں کسی محفل میں گیا اور ساری کی ساری نشست اٹھ کر کھڑی ہوگئی کہ شاید واصف علی واصفؒ آگئے مگر اگلے لمحے میں نے جب انہیں بتایا کہ واصف ؒ نہیں منو بھائی ہیں تو وہ ششدر رہ گئے واصفؒ صاحب نے جواب میں فرمایا منو بھائی میرے ساتھ بھی کئی بار ایسا ہوا کہ میں کسی محفل میں گیا سب لوگ اٹھ کر کھڑے ہوگئے کہ شاید جنگ کے کالم نگار منو بھائی آگئے یہ دو انتہائی عظیم دوستوں کی کچھ آپ بیتی ہے جن کا رشتہ تاریخ کے ماتھے کا جھو مر ہے۔ منو بھائی تصوف شناس بھی تھے اور غریبوں، مزدوروں، کسانوں، ہاریوں، محنت کشوں کی مضبوط اور توانا آواز بھی تھے۔ منو بھائی نے ہر دور آمریت میں وقت کے فرعون کو للکارا ضیا آمریت میں تو منو بھائی جمہوری جدوجہد کرنے والوں میں صف اول میں شما ر ہوتے تھے ۔شہید ذوالفقار علی بھٹو، شہید بی بی رانی، اور پیپلز پارٹی سے محبت کا رشتہ فقید المثال تھا ایام علالت میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی چند روز پہلے ملاقات اور منو بھائی کا بلاول بھٹو سے والہانہ محبت کا اظہار حقیقی جمہوری سوچ کی شاندار عکاسی تھی منو بھائی نے انتہائی اعلیٰ سطح پر تعلقات کے باوجود کبھی اپنی ذات کیلئے کوئی فائدہ نہیں لیا جب بھی بات کی سندس فاونڈیشن کیلئے ہی آواز اٹھائی جب بلاول چنددن پہلے ملاقات کیلئے گئے شدید بیماری کے باوجود بھی منو بھائی نے سندس فاونڈیشن کے سندھ میں قیام کی بابت بات کی اور حکومت سندھ سے خصوصی معاونت کی درخواست کی منو بھائی ہمیشہ غیر متنازعہ رہے تنقید کی تو وہ بھی دروغ گوئی سے دامن بچاکر ، تعریف کی تو وہ بھی انتہائی نپی تلی اور مبالغہ آرائی سے کوسوں دور، منو بھائی جدوجہد اولوالعزمی استقامت اور جہد مسلسل کی لازوال داستان تھے جو رہتی دنیا تک عام آدمی کیلئے جدوجہد کا استعارہ رہیں گے آخر میں منو بھائی کی انتہائی شاندار اور میری پسندیدہ ترین نظم کا انتہائی اختصار کے ساتھ ایک قطعہ قارئین کیلئے پیش خدمت ہے جو آج بھی ملکی حالات کی بھر پور عکاسی کررہا ہے۔

احتساب دے چیف کمشنر صاحب بہادر!
درداں کولوں لئو شہادت
زخماں تو تصدیق کرا لئو
ساڈے ایس مقدمے دے وچ
سانوں وی تے گواہ بنا لئو
آزادی دی پہلی فجر توں لے کے ہن تک
اس دھرتی تے ڈہلے ہوئے
سارے لہو دی قسم چکا لئو
سچ بولاں گے
سچ کھولاں گے
سچ دے باہجھ نہ کجھ پھولاں گے
آخر میں منو بھائی کی بلندی درجات اور پسماندگان کے صبرجمیل کیلئے دعا گو ہوں۔

عبدالحنان چوہدری

ادارے کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں )