چندو بابو لال کا انقلابی پیغام

چندو بابو لال کا انقلابی پیغام

امریکہ کے 35 ویں صدر جان ایف کینیڈی جنگ کی تباہ کاریوں پر رقم طراز ہیں:"انسانوں کو جنگیں ختم کرنا ہونگی ، اس سے پہلے کہ جنگیں انسان ختم کر دیں۔"
پاک بھارت کنٹرول لائن پر دونوں اطراف سے گولہ باری ایک معمول کی بات ہےجس میں فریقین کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔جب ہمارے جوانوں کی شہادت کی خبر آتی ہے تو ماحول سوگوار ہو جاتا ہے۔ گارڈ آف آنر، شہداء کو خراج تحسین اور ان کے لواحقین کے تاثرات سے مزین خبرنامے ہمارے عزائم کو تقویت بخشتے ہیں۔ دوسری جانب جب بھارتی فوجیوں کے جاں بحق ہونے کی خبریں آتی ہیں تو جشن کا سماں ہوتا ہے۔ جہنم واصل، مردار، منہ توڑ جواب ، لاشیں چھوڑ کر فرار اور مزہ چکھانے جیسے الفاظ کا بکثرت استعمال ماحول کو گرما دیتا ہے۔
جوشیلے نعروں میں مست عوام اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ سرحدوں پر محافظ کن مسائل سے دوچار ہیں۔ فائرنگ ، گولہ باری اور جنگ کی تباہ کاریوں سے وہی شخص واقف ہے جسے اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سرحدی اشتعال انگیزیوں کے باوجود سمجھدار حکمران جنگ کے شعلوں کو بھڑکانے سے گریز کرتے ہیں۔
سرحدی محافظ دن رات جنگی ماحول میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ تعیناتی کے ابتدائی دنوں میں وہ موت سے خوف زدہ ہوں لیکن کچھ وقت گزارنے کے بعد ان کے دل سے موت کا خوف جاتا رہتا ہے۔ برفانی پہاڑی علاقوں میں رات کو فوجی چوکیوں پر موت کا رقص ہوتا ہے جہاں گھٹاٹوپ اندھیرے میں معمولی سی غفلت گلا کٹوا سکتی ہے۔ جہاں پاؤں پھسلنے کا مطلب گرنا نہیں بلکہ کھائی میں جا گرنا ہوتا ہے۔جہاں شیل پروف چوکی سے باہر آنا سینہ گولیوں سے چھلنی کروا سکتا ہے۔ ایسے ہی بے شمار مسائل سے نبردآزما فوجی جوانوں کے لیے بعض اوقات زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔
چندو بابو لال چوہان مقبوضہ کشمیر کی 37 راشٹریہ رائفلز کا ایک ستایا ہوا فوجی اپنی زندگی سے تنگ آکر پاکستان داخل ہوا اور خود کو اسلحہ سمیت پاکستانی فوج کے حوالے کر دیا۔

وہ اس بات سے بے خبر نہ تھا کہ فوجی وردی میں دشمن ملک جانے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ نہ وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ غلطی سے سرحد پار کر جانے والے فوجی کے ساتھ پاکستان اور بھارت میں کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ نہ جانے اس کے ذہن میں کیا بات تھی جو اس نے اپنی زندگی کا خطرناک ترین کام سر انجام دیا۔ شاید وہ بتانا چاہتا تھا کہ دوسری طرف بھی انسان بستے ہیں۔ ڈپریشن کا شکار یہ سپاہی ہمارے اس تصوراتی بھارتی فوجی سے بہت مختلف تھا جس کی ہلاکت کی خبر پر ہم جشن مناتے ہیں۔ دشمن ملک کی قید میں جانے کی خبر اس کے گھر والوں پر بجی بن کر گری اور صدمے سے اس کی نانی لیلا بائی کا انتقال ہو گیا۔
پاکستان چاہتا تو اس کو جاسوس کی شناخت دے کر پوری دنیا میں رسوا کرتا۔ چاہتا تو اس کا مردہ جسم واہگہ بارڈر پر بھارتی فوج کے حوالے کرتا جیسا کہ وہ اکثر کرتے ہیں

لیکن سلام پاکستانی فوج کو جس نے سپاہی کو سمجھا بجھا کر اس کی رائفل سمیت تحفے تحائف اور مٹھائی دے کر اس کے وطن روانہ کیا

یہ جذبہ خیر سگالی برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ چندو بابو لال چوہان کا اقدام احمقانہ ضرور جس میں اس کی جان بھی جا سکتی تھی لیکن وہ یہ انقلابی پیغام ضرور دے گیا ہے کہ مسائل چاہے کتنے ہی گھمبیر کیوں نہ ہوں ان کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر حل کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان اوربھارت کو اب سمجھ لینا چاہئے کہ کوئی بیرونی طاقت ان کے مسائل کو حل کرانے نہیں آئے گی۔ یہ بار دونوں ممالک کو مل کر اٹھانا ہے۔ دونوں ممالک نے اپنے اپنے موقف کو منوانے کے لیے جنگیں بھی کر کے دیکھ لیں لیکن سرحدی مسائل کم ہونے کے بجائے آتش فشاں بن گئے جس میں ہر روز نہ جانے کتنی ماوں کی گود اجڑتی ہے۔ اگر جنگ کرنی ہی ہے تو بھوک ،افلاس اور جہالت کے خلاف کریں اور آنے والی نسلوں کو محفوظ مستقبل دے کر جائیں ورنہ جنگ کی تباہ کاریاں ہی مقدر ہونگی جن کا مشہور یونانی فلسفی افلاطون نے کیا خوب خلاصہ کیا ہے۔
"صرف مردہ لوگ ہی جنگ کا اختتام دیکھ پاتے ہیں۔"

ارشد فاروق بٹ انگریزی کے استاد  اور بلاگرہیں

انکا فیس بک آئی ڈی  ارشد فاروق بٹ