نگران وزیراعلیٰ پنجاب

نگران وزیراعلیٰ پنجاب

معروف صحافی محسن نقوی کو نگران وزیر اعلیٰ پنجاب مقرر کر دیا گیا ہے، اس منصب کے لئے اْن کے نام کی سفارش پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز شریف نے کی تھی، ظاہر ہے اْنہوں نے یہ سفارش اپنے بزرگوں اور اتحادی جماعتوں کے کہنے پر ہی کی ہوگی، اس کا مطلب ہے محسن نقوی کو وفاقی حکومت اور اْس کی گیارہ اتحادی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے، یہ ایسی بڑی حمایت ہے اس سے قبل شاید ہی کسی کے حصے میں آئی ہو، اس منصب پر دو صحافی پہلے بھی فائز رہے، حسن عسکری اور نجم سیٹھی نگران وزیراعلیٰ رہے، جبکہ ایک سینئر صحافی عارف نظامی نگران وفاقی وزیر اطلاعات بھی رہے، سوہم اب اس یقین میں مبتلا ہیں پنجاب میں نگران وزیراعلیٰ کا منصب اب اہل حماقت کے بجائے اہل صحافت کے لئے وقف کر دیا گیا ہے، صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے، صحافت سے سیاست کو نکال دیا جائے یا سیاست کو صحافت سے نکال دیا جائے دونوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ عمران خان کی جانب سے دو بیوروکریٹس نوید اکرم چیمہ اور سردار احمد نواز سکھیرا کے نام دئیے گئے، نوید اکرم چیمہ کے بارے میں سْنا ہے اْنہوں نے اس یقین کے تحت کہ اْنہیں کسی صورت میں وزیراعلیٰ نہیں بنایا جائے گا خود ہی وزیراعلیٰ بننے سے انکار کر دیا، احمد نواز سکھیرا کا نام دیتے ہوئے خان صاحب نے ایک بار پھر یہ ظاہر کر دیا کہ اْس قانون قاعدے کا اْنہیں ذرا لحاظ نہیں جس قانون قاعدے کی بات وہ اپنی ہر تقریر اپنے ہر بیان میں بڑا زور دے کر کرتے ہیں، احمد نواز سکھیرا بہت اچھی شہرت کے مالک ہیں مگر وہ شاید ریٹائرڈ ہو چکے ہیں یا ہونے والے ہیں، قانون کے مطابق وہ ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد تک کوئی سیاسی عہدہ حاصل نہیں کر سکتے، اْن کا نام خان صاحب نے اللہ جانے کس کی سفارش پر پیش کر دیا، اللہ جانے خان صاحب کو کس نے یقین دلا دیا تھا وہ بطور نگران وزیراعلیٰ اْن کے لئے ویسی ہی خدمات انجام دے سکتے ہیں جیسی خدمات بْزدار دیتا رہا۔۔ ویسے مجھے یقین تھا بطور نگران وزیراعلیٰ بھی خان صاحب عثمان بْزدار کا نام ہی پیش کریں گے، کیونکہ مختلف معاملات میں جو سہولیات و مزے وغیرہ خان صاحب کو وہ دے سکتا ہے کوئی اور اْس کا تصور نہیں کر سکتا، دوسرا نام جو خان صاحب پیش کر سکتے تھے فرح گوگی جی کا تھا، ممکن ہے یہ نام خان صاحب نے کسی اور منصب یا مقصد کے لئے بچا کر رکھ لیا ہو، ہوسکتا ہے آئندہ انتخابات میں اْنہیں کسی حلقے سے پی ٹی آئی کا قومی و صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ جاری کر دیا جائے، اْن کے مقابلے میں کوئی شریف آدمی یا کوئی شریف خاتون الیکشن میں کھڑی ہوگئیں یا کھڑا ہو گیا اْس کے جیتنے کے امکانات اس لئے بہت کم ہوں گے جو”خوبیاں“ فرح گوگی جی میں ہیں کسی اور میں ہو ہی نہیں سکتیں۔ اور فرح گوگی جی الیکشن اگر جیت گئیں یا نہ بھی جیتیں اور پنجاب میں پی ٹی آئی کو دوبارہ اکثریت حاصل ہوگئی اْنہیں وزیراعلیٰ پنجاب بھی بنایا جاسکتا ہے، عثمان بْزدار کو ممکن ہے آئندہ کے پی کے کا وزیراعلیٰ بنا دیا جائے، کیونکہ جس قسم کی”خصوصیات“ کے وہ مالک ہیں کے پی کے میں خود بھی وہ خوش رہیں گے خان صاحب کو بھی رکھیں گے۔۔ ویسے جس طرح اپوزیشن لیڈر نے ایک صحافی کا نام بطور نگران وزیراعلیٰ پیش کیا اْسی طرح خان صاحب کو بھی چاہئے تھا اہل صحافت کے ساتھ اپنی محبت ثابت کرنے کے لئے ہمارے ایاز امیر یا عمران ریاض خان کا نام پیش کرتے، برادرم قاسم علی شاہ عمران خان کی تعریفوں کے پْل باندھنے کے فوراً بعد اپنے ہی باندھے ہوئے یہ پْل گرانے نہ لگ جاتے ممکن ہے خان صاحب اْن کا نام بطور نگران وزیراعلیٰ پیش کر دیتے، اْن کی ریٹنگ یکدم اتنی نہ گرتی اْن کا نام بطور نگران وزیراعلیٰ”اْوپر“ سے بھی نازل ہوسکتا تھا۔۔ برادرم محسن نقوی گزشتہ ہفتے میرے صاحبزادے کے ولیمے میں شریک ہوئے، میں نے تب ہی اْن سے کہہ دیا تھا آپ کا حق بنتا ہے یا نہیں یہ منصب آپ کو ہی ملے گا، وہ بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں، اْنہیں جو کچھ اْن کے حق قابلیت یا اوقات کے مطابق ملا اور جو کچھ اْن کے حق قابلیت یا اوقات سے زیادہ ملا وہ سب اْن کی اْس عاجزی و انکساری کا نتیجہ ہے جو فطری طور پر اْن سے جْڑی ہوئی ہے۔۔ عمران خان کا مستقبل کیا ہے؟ مجھے نہیں معلوم، مستقبل میں اْن کی حیثیت اگر”گئی گزری داستان“ جیسی ہوگئی اس میں بنیادی کردار اْن کے اْس تکبر کا ہوگا جس کے مطابق وہ خود کو نبیوں پیغمبروں اور ولیوں سے بڑھ کر سمجھنے لگے تھے، اْن کی دوسری خرابی جس نے اْنہیں اب ایک مقام سے اْٹھا کر ایک مکان میں مقید کر دیا وہ اْن کی احسان فراموشی ہے، اپنے ہر اْس محسن کو اْنہوں نے ڈسا جس نے اقتدار میں لانے کے لئے اْن کی راہ ہموار کی، علیم خان اور جہانگیر ترین اس کی زندہ مثالیں ہیں، علیم خان کے معاملے میں تو وہ احسان فراموشی کی اس حد تک گئے اْن کے خلاف بنائے جانے والے انتقامی مقدمات میں اْن کی بیگم اور بچوں تک کے نام شامل کروا دئیے، کوئی شرم کوئی حیا خان صاحب کو چْھو کر نہیں گْزری، وہ ہر معاملے میں بے شرم ثابت ہوئے، اس بے شرمی کے کچھ نتائج اْنہوں نے بْھگت لئے کچھ بْھگتنے والے ہیں، کوئی معجزہ اْن کے حق میں اگر نہ ہوا اْن کے دوسری بار وزیراعظم بننے کے چانسز بہت کم ہیں، اْن کی مقبولیت شاید ہو ”قبولیت“ اب نہیں ہے۔۔ محسن نقوی کے نگران وزیراعلیٰ بننے پر اْنہوں نے شدید اجتجاج کیا ہے، اْن کے اس احتجاج کو اْسی طرح کوئی خاطر میں نہیں لا رہا جس طرح بْزدار کے وزیراعلیٰ بننے پر ہم نے احتجاج کیا تھا اور خان صاحب اْسے خاطر میں نہیں لائے تھے۔۔ مجھے یاد ہے ایک بار جب خان صاحب وزیراعظم تھے مجھے اْنہوں نے بلایا فرمانے لگے ”میڈیا کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟“۔۔ اس سوچ بچار میں کہیں محسن نقوی کا نام آگیا، جس مْتکبرانہ انداز میں اْنہوں نے محسن نقوی کا زکر کیا مجھے لگتا ہے وہی لمحہ تھا جب قدرت نے یہ فیصلہ کر لیا تھا محسن نقوی کو بڑا انعام دینا ہے یہ انعام اب اْنہیں نگران وزیراعلیٰ بننے کی صورت میں مل گیا اور خان صاحب کا تکبر خاک میں مل گیا۔۔ اس ملاقات کی ایک اور بات مجھے یاد آرہی ہے، میں نے اس موقع پر خان صاحب سے کہا ”آپ نے چودھری پرویز الٰہی کو سپیکر پنجاب اسمبلی بنا دیا اْن کی جماعت کے ارکان اسمبلی کو وفاقی و صوبائی وزراء بنا دیا، مونس الٰہی کو وفاقی وزیر بنانے میں کیا حرج ہے؟“۔۔ وہ بولے”اس کے لئے پہلے تو مجھے ایک ایسا نیا محکمہ بنانا پڑے گا جس میں کوئی چاہے بھی تو کرپشن نہ کر سکے پھر مونس کو اْس کا وزیر بنا دْوں گا“۔۔ آج ماشااللہ مونس الٰہی اور چودھری پرویز الٰہی اْن کے اتنے قریب ہیں ممکن ہے عنقریب دونوں پی ٹی آئی میں شامل ہو کر اْس پوزیشن پر آ کر بیٹھ جائیں جس پر آج خان صاحب ہیں۔