کرپٹ کون ہے، عوام یا حکمران؟

کرپٹ کون ہے، عوام یا حکمران؟

 عام طور پر سننے میں آتا ہے کہ پاکستانی عوام کو شعور نہیں، ہم سب من حیث القوم کرپٹ ہیں، جیسی قوم ویسے حکمران وغیرہ وغیرہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سارے پڑھے لکھے اور باشعور لوگ بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم ہر کام میں  حکمرانوں کو مورد ِ الزام ٹھہراتے  جب کہ غلط ہم خود ہیں۔ جب تک پہلے ہم خود اپنی اصلاح نہیں کرتے معاشرہ اور ملک ایسے ہی رہے گا۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ ہر شخص کو ہر وقت اپنی اصلاح کرتے رہنا چاہئے اور یہ بھی غلط نہیں کہ ہم اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرنے کے باوجود بے ایمانی بھی کرتے ہیں، جھوٹ بھی بولتے ہیں اور دھوکے بازی سے بھی باز نہیں آتے۔ لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ حکمران طبقہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ پہلی اور بنیادی بات جمہوریت کا دھوکہ ہے جس کے ذریعے ہمیشہ عوام کو الو بنایا گیا ہے۔ عوام اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں اس سے بڑا جھوٹ ہی کوئی نہیں۔ جس ملک میں صاف شفاف انتخابات کا تصور ہی نہ ہو وہاں عوام پر یہ سوال اٹھانا کہ عوام کیوں کرپٹ اور جاہل سیاستدانوں کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں۔۔۔سراسر گمراہی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے موجودہ سیاسی صورتحال کو پیش کیا جاسکتا ہے، اس میں کسی کو رتی برابر بھی شک و شبہ نہیں کہ ملک کی واضح اکثریت عمران خان کے پیچھے کھڑی ہے لیکن ہمیں قدم قدم پر نظر آ رہا ہے کہ اقتدار پر مسلط طبقہ عوام کی بھاری اکثریت کو جوتے کی نوک پر رکھ کر عمران خان سمیت کچل کر رکھ دینے کے در پے ہے۔ حتیٰ کہ ان کے پچھلے دس مہینوں کے کردار نے ثابت کردیا ہے کہ ملک جاتا ہے تو جائے بھاڑ میں لیکن عوامی اکثریتی رائے پر آمین کہنے کا رواج ہی نہیں پڑنے دیا جائے گا۔ دوسرا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ آخر وجہ ہے کیا کہ پاکستان میں انجینئرڈ جمہوریت کو بھی کبھی پانچ سال 
مکمل نہیں کرنے دیے گئے۔ میرے نزدیک ہماری معاشی، سیاسی اور سماجی ابتری کے پیچھے چھپے عوامل کا راز اسی سوال کے جواب میں مضمر ہے۔ جس دن ہمیں اس سوال کا جواب مل گیا اس دن یہ مزید ثابت ہوجائے گا کہ عوام غلط ہیں یا حکمران۔ دنیا میں قبائل نے جب معاشرے اور پھر ریاست کی شکل اختیار کی تو قوانین اور آئین کی تشکیل کی گئی نظام انصاف بنایا گیا۔ جس جس حکمران نے انصاف قائم کیا دنیا میں اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا گیا اور ایسی ہی ریاستوں نے ترقی کی جنہوں نے قانون اور انصاف کے نظام پر اپنے معاشروں کی بنیادیں مضبوط کیں۔ ہمارا معاشرہ ایک 
دم انسانی اور سماجی زوال کا شکار نہیں ہوا بلکہ ہمارے حکمرانوں نے آئین اور قانون کی بے حرمتی کر کر کے پوری قوم کی اجتماعی اخلاقیات کا جنازہ نکال کے رکھ دیا ہے۔ یہاں پولیس کی وردی کا رنگ اس لیے بدل دیا جاتا ہے کہ نئی وردی کے ٹھیکے سے کمیشن لی جاتی ہے۔ ہیلمٹ کی پابندی موٹرسائیکل  سواروں کی حفاظت کے لیے عائد نہیں کی جاتی بلکہ ہیلمٹ بنانے والوں کو فائدہ دینے کے لیے لگائی جاتی ہے۔ بجلی کا کرائسز پیدا کرکے سولر کمپنیوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ پاکستانی ادویہ ساز کمپنیوں کی حوصلہ شکنی کرکے غیر ملکی کمپنیوں کے ایجنڈوں پر عمل کیا جاتا ہے تاکہ مال بنایا جائے۔ مجرم کو معصوم اور معصوم کو مجرم قرار دینا تو جیسے معمول کی بات ہے۔ باعزت شہری آج بھی تھانوں سے انصاف نہیں لے پاتے۔ طاقتور کے لیے قانون اور ہے اور کمزور کے لیے اور۔ صرف نظام تعلیم کی زبوں حالی دیکھ لی جائے، ڈگریوں اور تھیسز کے دھندے پر نظر ڈالی جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں رہتا کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ ڈرگز کے کاروبار پر آج تک کوئی حکمران پوری طرح ہاتھ نہیں ڈال سکا۔ رشوت اور کرپشن کو نظام کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اور یہ توکچھ بھی نہیں حکمران طبقے نے اس ملک اور معاشرے کے ساتھ کیسے کیسے کھلواڑ کیے ہیں اس پر ہزاروں صفحات کالے کیے جا سکتے ہیں۔ کرنسی کی ایکسپلائٹیشن عام آدمی کی جیبیں خالی کرنے اور کرنسی مافیاز کی بھرنے کا ایسا گھناؤنا دھندہ ہے جو حکمرانوں کو فائدہ اور ملکی معیشت کو کْھل کْھلا کے بلکہ رج کے فائدہ دیتا ہے۔ راتو رات عوام کے اکاؤنٹس پر کرنسی ڈاکہ پڑتا ہے اور بینک میں پڑے پیسے پڑے پڑے گھٹ جاتے ہیں۔ صحافت اور میڈیا کی خرید و فروخت عوام نے نہیں حکمرانوں نے شروع کی ہے۔ میرٹ کی دھجیاں وہی اڑا سکتا ہے جو حکومت میں ہو۔ عوام کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ جھوٹ بولے، بے ایمانی کرے اور کرپٹ مافیا کے سامنے بے بس رہے۔ حکمران خود کرپٹ نہیں ہوگا تو کرپٹ لوگوں کی سرپرستی نہیں کرے گا لیکن یہاں تو لوٹ مار کو بھی حکومت میں آنے والوں کا حق سمجھا جاتا ہے۔ پراپرٹی ڈیلروں نے عوام کے ساتھ مل کر نہیں، حکمرانوں کے ساتھ مل کر اندھیر مچایا ہے۔ کیا سمگلنگ حکمرانوں کی چشم پوشی کے بغیر ممکن ہے؟  نہیں ہے۔ حکمرانوں کا جس پراڈکٹ پر دل کرتا ہے ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ دے دیتے ہیں اور جب دل کرتا ہے واپس لے لیتے ہیں۔
یہ ایک فریب ہے کہ عوام غلط ہے اور یہ کہ معاشرے کی بربادی  کا الزام حکمرانوں پر نہ لگایا جائے۔ جب تک کسی ملک و معاشرے کو اچھے حکمران نصیب نہیں ہوتے وہاں نہ انصاف قائم کیا جاسکتا ہے نہ اس معاشرے کو بگاڑ سے بچایا جاسکتا ہے۔ یہی پاکستانی جب دوسرے ممالک میں جا کے آباد ہوتے ہیں تو اکا دکا کو چھوڑ کر اکثریت وہاں کے قوانین اور اقدار کی پاسداری کرتی ہے تو پھر اپنے ملک میں کیوں نہیں کرتی۔ اس لیے کہ پر امن اور دیانتدار معاشرے کی تشکیل کبھی بھی ہمارے حکمرانوں کی ترجیح نہیں رہی۔ عوام بیچارے تو آج بھی ملک و قوم کے نام پر جان تک فدا کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں لیکن بعد میں پتا چلتا ہے کہ حکمرانوں نے تو ان قربانیوں کے بھی پیسے پکڑ رکھے تھے۔ حکمران غیر ملکیوں کی جنگیں اپنے ملک میں لے آتے ہیں جس میں مارے جانے والے انسان عوام کے اور آنے والے ڈالر حکمرانوں کے ہوتے ہیں۔ پچھلے دس مہینوں میں جس دھونس، ہٹ دھرمی اور دیدہ دلیری کا مظاہرہ حکمرانوں نے کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ یعنی اب تو اس بات کی پروا بھی نہیں کی گئی جس کا علم بلند کیا جاتا تھا۔ نگران حکومت کا مطلب غیر جانبدار حکومت بتایا جاتا رہا ہے لیکن محسن نقوی کی بطور وزیراعلیٰ تقرری نے اس کا بھانڈا بھی پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔