قرضوں کی مانیٹرنگ کا موثر نظام وضع کیا جائے،میاں زاہد حسین

قرضوں کی مانیٹرنگ کا موثر نظام وضع کیا جائے،میاں زاہد حسین

کراچی: پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م کے صدر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ملک کا زرعی شعبہ قابل ذکر ترقی نہیں کر رہا جس کی وجہ قرضے دینے کا ناقص نظام اور موثرمانیٹرنگ کے نظام کی عدم موجود گی ہے۔ گزشتہ دہائی میں مختلف بینکوں نے زرعی شعبہ کو کھربوں روپے کے قرضے دئیے ہیں مگر ان کی مانیٹرنگ نہیں کی گئی جسکی وجہ سے کسانوں نے ان قرضوں کو زرعی ترقی کے بجائے دیگر مقاصد کیلئے استعمال کر کے ضائع کر دیا۔

میاں زاہد حسین نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے او ر برآمدات کی بھاری اکثریت کا دارومدار زراعت پر ہے مگر اس شعبہ کی ترقی کو توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ بینکوں کی جانب سے ملنے والے قرضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے مگر پیداوار میں اضافہ نہیں ہو رہا جسکی ایک وجہ یہ ہے کہ بہت سے چھوٹے کاشتکار ان قرضوں کو شادی بیاہ اور دیگر سماجی معاملات پر خرچ کر دیتے ہیں جس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ ان حالات میں زرعی پیداوار نہیں بڑھتی اور کاشتکار قرضے واپس ادا نہیں کر پاتے جس سے ان پر سود کا بوجھ اور مالیاتی اداروں پر مالی بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ عام طور پر زرعی قرضے زرعی مشینری اور ٹریکٹر وغیرہ کی خریداری کیلئے ناکافی ہوتے ہیں اسلئے اگر ا ن کا صحیح استعمال کیا جائے تو بھی نتائج حاصل نہیں ہوتے۔

ان کا کہنا تھا کہ فی ایکڑ پیداوار میں بھارت بھی پاکستان سے آگے ہے جبکہ مغربی ممالک میں فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کے پیچھے قرضے نہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، زرعی پیداوار کی اچھی پراسسنگ، بہتر بیج ،معیاری ادویات اور کھاد کا مناسب استعمال شامل ہے جبکہ پاکستانی منڈی غیر معیاری بیچ، کھاد اور جعلی ادویات سے بھری ہوئی ہے۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ سال رواں میں حکومت پنجاب چھوٹے کاشتکاروں کو فی ایکڑ پچیس ہزار سے چالیس ہزار تک کا قرضہ دے گی اور اسکا سود جو سترہ ارب روپے ہو گا کی ادائیگی کاشتکاروں کے بجائے صوبائی حکومت خود کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت اسکے بجائے کاشتکاروں کو جدید ٹیکنالوجی کی ترغیب دے کیونکہ اس طرح کے مائیکرو فنانس قرضوں سے اب تک کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا ہے۔

مصنف کے بارے میں