افغان، طالبان اور پاکستان……!

Sajid Hussain Malik, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

میں سوچتا ہوں یہ پاگل پن تھا، اسلامی اخوت اور بھائی چارے کا بے مثال اظہار تھا، پاکستان کی سا لمیت اور تحفظ سے لگاؤ کا  تقاضہ تھا، سر زمینِ افغانستان سے تعلق رکھنے والے پروفیسر برہان الدین ربانی مرحوم، گلبدین حکمتیار، صبغت اللہ مجددی، عبدالرب رسول سیاف اور مولوی یونس خالص جیسے جہادی راہنماؤں سے گہری عقیدت و محبت کا اظہار تھا کہ پچھلی صدی کی اسی کی دہائی میں اس خیال و سوچ سے اپنے مہربان دوستوں کے ہمراہ پشاور جایا کرتے تھے۔ کہ وہاں پشاور کے مخصوص کھانوں  تکہ کباب اور بالٹی گوشت سے جہاں حظ اُٹھائیں  گے اور باڑہ سے روزمرہ استعمال کی عام اشیاء صابن، شیمپو اور کپڑے وغیرہ خرید لیں گے وہاں نوشہرہ کے قریب ازہ خیل میں میلوں تک پھیلے ہوئے افغان مہاجرین کے کیمپ کی وسعتوں کا نظارہ کریں گے تو پشاور میں یونیورسٹی ٹاؤن کے سامنے ناصر باغ کے افغان مہاجرین کیمپ کا بھی جائزہ لے سکیں گے۔  یہ سلسلہ کتنے ہی سال چلتا رہا۔ پھر اگست 1988ء کی 17تاریخ کو صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق بہاولپور کے قریب C-130کے حادثے میں اپنے ساتھیوں سمیت اللہ کو پیارے ہوئے تو اسلام آباد میں اُن کے جنازے میں بڑی تعداد میں افغان جہادی لیڈروں اور مجاہدین کی شرکت اور افغان مہاجرین کیمپوں میں شہید صدر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے اُن کی غائبانہ نمازِ جنازہ اور مہاجرین کے کچے گھروں اور خیموں کے اندر باہر شہید صدر کی تصاویر آویزاں کرنے کے واقعات سامنے آئے تو افغان جہادی لیڈروں، مجاہدین اور مہاجرین سے عقیدت اور محبت کا رشتہ ایک رومانس کی شکل اختیار کر گیا لیکن افسوس صد افسوس کہ یہ رومانس جلد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہو گیا جب فروری 1988 میں ہونے والے جنیوا معاہدے  جس کی  ضیاء الحق شہید نے سخت مخالفت کی تھی لیکن وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو نے ہر صورت میں اس معاہدے پر دستخط کرنے پر اصرار کیا۔ بعد میں ضیاء الحق کا مؤقف درست ثابت ہوا کہ افغانستان  میں مستحکم حکومتی بندوبست اور انتظام و انصرام کے بغیر روسی فوجوں کا انخلاء بدامنی اور خانہ جنگی پر منتج ہوا۔
روسی فوجوں کے افغانستان سے انخلاء کے بعد پہلے حضرت صبغت اللہ مجددی کی قیادت میں افغانستان میں عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا اور بعد میں 1991ء یا1992 میں وہاں پروفیسر برہان الدین ربانی کے بطور صدر افغانستان حکومت کا انتظام سنبھالنے اور مشہور جہادی لیڈر گلبدین حکمتیار کی بطورِ وزیرِ اعظم افغانستان نامزدگی کا فیصلہ ہوا تو برہان الدین ربانی نے بطور صدر اسلامی افغانستان عہدہ سنبھال لیا لیکن گلبدین حکمتیار بطورِ وزیرِ اعظم اپنا عہدہ پوری طرح نہ سنبھال سکے کہ برہانِ الدین ربانی کی جماعت سے تعلق رکھنے والے مشہور جہادی لیڈر اور شمالی اتحاد کے اہم راہنماء احمد شاہ مسعود جن کے پاس افغانستان کے وزیرِ دفاع کا عہدہ بھی تھا وہ وزیرِ اعظم گلبدین حکمتیار کو دارالحکومت کابل میں داخلے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ گلبدین حکمتیار اپنے ساتھیوں کے ساتھ کابل کے جنوب مشرق میں 12، 13میل کے فاصلے پر سروبی کے مقام پر ڈیرے ڈالے رہے کہ احمد شاہ مسعود کے دستے انہیں آگے کابل کی طرف بڑھنے سے روکے ہوئے تھے۔ یقینا یہ انتہائی افسوس ناک صورتحال تھی جو افغان جہادی لیڈروں سے عقیدت و محبت کے رومانس میں دراڑیں ڈالنے کا سبب بنی لیکن پھر بھی جہادی لیڈروں اور افغان مجاہدین کا ذکر آتا تو آنکھیں اظہارِ عقیدت کے طور پر کچھ نہ کچھ جھک ہی جاتیں کہ یہ افغان مجاہدین ہی تھے جنہوں نے عالمی طاقت روس کو جس نے پاکستان کو دو لخت کرنے کے لیے بھارتی سازشوں میں اہم کردار ادا کیا تھا کو شکست سے دوچار کرکے دریائے آمو کے اس پار پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کیا تھا۔
افغانستان میں خانہ جنگی اور بد امنی کے حوالے سے بات کچھ طویل ہو رہی ہے لیکن اس کا تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ افغان جہادی لیڈر 
ہوں، افغان مجاہدین ہوں، افغان مہاجرین ہوں، افغان عوام ہوں، وہاں کی حکومت کے ذمہ داران ہوں، ان سب نے نہ صرف پاکستان کی حکومت اور مقتدر اداروں کو مایوس، نااُمید اور ناراض کرنے میں کبھی کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی بلکہ میری طرح کے اپنے نیازمندوں اور ممدوحین کے جذبات کو مجروح کرنے میں بھی کچھ کمی نہیں چھوڑی۔ دکھ کی بات ہے کہ لگتا ہے کہ اب طالبان بھی شاید اُسی زمرے میں شامل ہو رہے ہیں یا ہو چکے ہیں، خیریہ سب کچھ بہت جلد واضح ہو کر دنیا کے سامنے آجائے گا۔تاہم یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ طالبان کا افغانستان میں عروج بھی پاکستانی حکومت، پاکستان کے مقتدر اداروں اور پاکستان کے عوام کے مرہونِ منت رہا ہے۔ پچھلی صدی کے آخری عشرے کے ابتدائی برسوں میں جیسے اوپر کہا گیا ہے، افغانستان میں جب بدامنی، خانہ جنگی اور وار لارڈز کے غیر اخلاقی اور غیر قانونی اقدامات اور لوٹ مار کے واقعات حد سے بڑھ گئے توقندھار کی ایک چھوٹی سی مسجد کے امام ملا عمر نے اپنے ساتھیوں سے بیعت لی کہ وہ ملک افغانستان کو  امن کی راہ پر گامزن ہی نہیں کریں گے بلکہ وار لارڈز کے ظلم و ستم  اور غیر اخلاقی اور غیر قانونی اقدامات سے بھی نجات دلائیں گے۔ اس طرح 1994ء میں قندھار میں طالبان کا ظہور سامنے آیا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے کچھ عرصے میں افغانستان میں اپنا سکہ جما لیا۔کابل کی حکومت بھی طالبان کے قبضے میں آگئی اور افغانستان کو امارتِ اسلامی افغانستان کا نام دے کر طالبان نے وہاں پر اسلامی قوانین کے نفاز کے ساتھ اپنے اقتدار کو مضبو ط اور مستحکم بنالیا۔ 
بلا شبہ طالبان افغانستان میں خانہ جنگی  اور بد امنی کو ختم کرنے، وار لارڈز کا قلع قمع کرنے اور منشیات کی پیداوار اور مراکز کو ختم کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہے تاہم دنیا کو ان سے کئی طرح کے تحفظات اور خدشات تھے۔ پاکستان کے علاوہ ہمسایہ ممالک میں سے بھی کوئی ان سے خوش نہیں تھا۔ اسی دوران 2001ء میں 9/11کا واقعہ پیش آگیا تو امریکہ نے القاعدہ تنظیم کو اس کا ذمہ دار قرار دے کر اس کے سربراہ اسامہ بن لادن جو افغانستان میں موجود تھے کو زندہ یا مردہ پکڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ امریکہ نے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کو ختم کرنے کے نام پر افغانستان پر چڑھائی کر دی، نیٹو اور امریکن افواج افغانستان میں در آئیں اور  اس کی اینٹ سے اینٹ نہ بجا دی بلکہ کچھ ہی دنوں میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیااور افغانستان غیر ملکی افواج  کے زیرِ تسلط آگیا۔ اس کے بعد افغانستان میں حامد کرزئی کی کٹھ پتلی حکومت کتنے ہی سال تک چلتی رہی اور اب اشرف غنی کی حکومت نے پچھلے کم و بیش 7، 8برسوں سے افغانستان کی قانونی حکومت کا درجہ حاصل کیا ہوا ہے۔ یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے لیکن اتنی بات واضح ہے کہ پہلے حامد کرزئی کی حکومت قائم تھی اور اب اشرف غنی کی حکومت ہے تو ان حکومتوں کو افغان عوام نے کبھی بھی دل وہ جان سے قبول نہیں کیا ہے۔ طالبان اس پورے عرصے میں افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلا اور غیر ملکی اثر و رسوخ ختم کرنے کے لیے مزاحمت کی راہ پر گامزن رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اب تو طالبان کے مطالبے پر افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلاء بھی مکمل ہونے والا ہے۔ نیٹو افواج افغانستان سے نکل چکی ہیں تو اگست کے آخر تک امریکی افواج کا انخلاء بھی مکمل ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ پورے افغانستان میں طالبان کا تسلط روز بروز مستحکم ہو رہا ہے یہاں تک کہ دنیا یہ تسلیم کر رہی ہے کہ طالبان افغانستان میں فاتح کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ اشرف غنی کی افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت مفتوح کی حیثیت رکھتی ہے۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے دنوں میں افغانستان میں طالبان کا اقتدار مستحکم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اب تو طالبان کے امیر مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کا اتوار کو ایک طویل بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے اس بات کا واضح لفظوں میں اظہار کیا ہے کہ بیرونی افواج کی اکثریت افغانستان سے جا چکی ہے اور افغانستان کے وسیع علاقوں اور کافی اضلاع میں مکمل امن و امان قائم ہے۔ مذاکرات اور سیاسی عمل کی پیش رفت کی خاطر سیاسی دفتر کھلا ہے اور مضبوط مذاکراتی ٹیم کو منتخب کرکے  بات چیت کے ذریعے تنازع کے حل کے لیے پرعزم ہیں جبکہ مخالف فریق ٹال مٹول سے کام لے رہا ہے۔ سفارتکاراور غیر سرکاری ادارے یقین کریں، ہماری طرف سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ قبضے میں لیا اسلحہ، ساز و سامان، عمارتیں، قومی  اثاثے اور بیت المال قوم کی امانت ہیں، کسی کو ان کی تباہی کا حق نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک کو موجودہ خانہ جنگی کی صورتحال سے بچائیں اور ہم اپنے مجاہدین کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ امارتِ اسلامیہ کے ماتحت علاقوں میں دینی اور جدید علوم پر خصوصی توجہ دیں اور مدارس دینیہ سکول و کالج اور یونیورسٹیاں کھلی رکھیں۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ افغانستان کی سر زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی وہ کسی اور ملک کو اپنے معاملات میں دخل اندازی کی اجازت دیں گے۔
طالبان کے امیر کا یہ بیان یقینا خوش کن ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ طالبان کو افغانستان پر اپنا تسلط قائم کرنے اور اسے امارتِ اسلامی کا درجہ دینے میں اب کسی طرح کی روکاوٹ کا سامنا نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان اب پہلے کے طالبان نہیں رہے اور ان کے رویوں میں بڑی تبدیلی ہی نہیں آچکی ہے بلکہ وہ وقت کے تقاضوں کے مطابق ضروری فیصلے اور اقدامات بھی کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ یقینا حوصلہ افزاء ہے لیکن ایک بات واضح ہے اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ افغانستان میں کوئی بھی حکمران ہو اس نے کبھی بھی پاکستان کے احسانات، مہربانیوں اور وسیع ظرفی کا جواب اُس انداز میں نہیں دیا ہے جیسے دینا چاہیے۔ دیکھئے ہیں اب طالبان کیا کرتے ہیں؟۔