فکرِ گستاخ

فکرِ گستاخ

فلسطین کبھی نہ ختم ہونے والے جبر وقہر کی شبانہ روز لپیٹ میں ہے حسبِ سابق۔ پوری امت کی موجودگی میں فلسطینیوں کے گھر، کاروبار، شادی ہال، اسرائیلی بلڈوزروں کی زد میں ہیں۔ گھر خالی کرنے، علاقے چھوڑنے کا حکم دینا اسرائیلی اتھارٹی کا تسلیم شدہ حق ہے۔ ایسے میں امریکی صدر جوبائیڈن کا دورۂ اسرائیل، ایک قدیمی دوست کا بھرپور خیرمقدم کیے جانے کے جذبے کا اظہار تھا۔ عالمی چودھری، فلسطینیوں کے لیے انصاف کی فراہمی یا حقوق کی پاسداری کا کوئی ایجنڈا نہیں رکھتا۔ یہ دورہ اسرائیل کو (فلسطینی مسئلے کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے) مرکز اسلام اور عرب ممالک سے قریب لانے کے لیے تھا۔ جبکہ خلیجی ممالک سے انہیں تیل نکلوانا مقصود تھا۔ بائیڈن نے اسرائیل اور امریکا کے مابین تعلق کو ہڈیوں کے گودے میں جاگزیں گہرا تعلق قرار دیا۔
 دنیا بھر میں حقوق انسانی کی رٹ لگانے والے یہ دجالچے بھی کانے (یک چشم) ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ فلسطینی صدر سے ملاقات میں نہ دو قومی حل، نہ فلسطینی مسائل کے حل کے لیے مذاکرات میں پیش رفت کا کوئی تذکرہ ہوا۔ سارے پچھلے وعدے وعید روندتے ہوئے 87 سالہ محمود عباس کو ایک تحفہ ضرور دیا۔ امن تو دے نہیں سکتے، ہسپتال کے لیے 10 کروڑ ڈالر کی امداد کا احسان فرمایا۔ کیونکہ فلسطینی اتھارٹی کے بوڑھے صدر یا میزائیلوں، بلڈوزروں، اسرائیلی فوج کی گولیوں کی زد میں رہنے والوں کی حقیقی ضرورت ہسپتال ہی ہے۔ اپنے دورے میں 2 دن اسرائیل سے معاملات طے کیے، ایک صبح فلسطینی صدر کو خیرات کی۔ پھر وہ چلے عرب ممالک اور اسرائیل مابین تعلقات استوار کروانے۔ باوجودیکہ 2002ء میں سعودی شاہ عبداللہ نے جو طے کیا تھا، وہی پلان بعدازاں عرب لیگ نے بھی قبول کیا کہ اسرائیل سے تعلقات کی بحالی ایک قابل عمل فلسطینی ریاست کے قیام سے مشروط ہے۔ یہ پلان آج بھی ریاض میں موجود ومحفوظ ہے۔ اگرچہ مغربی ممالک کی بے اعتنائی سے عملاً مردہ ہے۔ شاید بائیڈن اسی کی تدفین کے لیے سعودی عرب گئے!
یاد رہے کہ امتِ مسلمہ کی اپنی شناخت، اخوت اور مسلم عوام کے حقوق کے تحفظ کا باضابطہ خاتمہ (بالشر) ٹرمپ کے ہاتھوں ہوا۔ ریاض میں 21 مئی 2017ء میں ٹرمپ کی ’امامت‘ میں 54 مسلم ممالک کے سربراہان کو ’عرب اسلامک امریکن اجلاس‘ میں ’اسلامی انتہاپسندی اور دہشت گردی‘ کے خلاف اکٹھا کیا گیا تھا۔ یہاں سے اس نئے دور کا آغاز ہوا جس میں عرب لیگ، او آئی سی میں شامل سبھی مسلم ممالک نے ٹرمپ کے ہاتھ پر گویا بیعت فرمائی۔ اس انہونی پر ٹرمپ کی خوشی دیوانگی کی حدود کو چھو رہی تھی۔ وفورِ مسرت سے کف آلود، سعودیوں معاہدات جو امریکیوں کو 10 لاکھ نئی نوکریاں فراہم کرنے کو تھے اور 3 کھرب ڈالر جس سے امریکی صنعت کا بوجھ اترنا تھا۔ اس کا اظہار کرنے میں بھی ٹرمپ کو باک نہ تھا! مسلم امت سو رہی تھی۔ وہ جانتا 
تھا یہ کٹھ پتلی حکمرانوں کی انگلیوں پر ناچنے والے جذباتی، کم فہم، نعرہ باز مسلمان ہیں۔سوشل میڈیا پر درفنطینیاں چھوڑکر جنہیں الجھانا، بہکانا، پیچھے لگانا الٹے ہاتھ کا کھیل ہے۔ وہ کھیل ہرجا، جاری وساری ہے۔ رہی سہی کسر محمد بن سلمان کی ٹرمپ کے داماد اور بیٹی کے ساتھ طویل مذاکرات اور دوستیوں نے پورے کیے۔ سعودی عرب کی پوری شناخت، ہیئت، قوانین بدل گئے۔ اسرائیل کے لیے امارات بحرین مراکش سمیت کئی مسلم ممالک کے دروازے کھل گئے۔ یہود وہنود کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں تر بہ تر ہوگیا۔ اب بائیڈن دورے کا مقصد یہی تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کو بھلے روندتا رہے، عرب دنیا اسے شرفِ قبولیت بخشے۔ نیز مشرق وسطیٰ میں چین اور روس کو حاوی ہونے سے روکا جاسکے۔ یہ اس خطے پر امریکی حق مسلمہ قرار دیے جانے کا دورہ ہے۔
مسلم امت کا بزرگوار بن کر بائیڈن نے عراق اور مصر سے الگ الگ گفتگو فرمائی۔ عراق سے جمہوریت کا مطالبہ کیا۔ (اگرچہ جمہوریت کا برانڈ واضح نہیں کیا، اشرف غنی ماڈل یا السیسی ماڈل؟) سعودی عرب میں گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کی حد تک انسانی حقوق کے پیرائے میں امریکی (سعودی) صحافی جمال خشوگی کے قتل پر بات کی۔ مقصد امریکی انسانی حقوق تنظیموں، سیاست دانوں کا منہ بند کروانا تھا۔ تاہم بائیڈن نے بدترین حقوق انسانی کی پامالی کا ریکارڈ رکھنے والے مصری آمر السیسی پر بے پناہ داد ودہش نچھاور کی۔ کیونکہ مصر نے اسرائیل کے ضمن میں غزہ، فلسطینی علاقے کو دبا کر رکھنے، کنٹرول کرنے میں ناقابل یقین تعاون کا کردار ادا کیا تھا۔ باوجودیکہ مصر میں ہزاروں گرفتار، لاپتا، پھانسیاں، قتل کیے گئے۔ اختلاف ناممکن بنا دیا، مظاہروں پر پابندی ہے، پریس کا گلا گھونٹا گیا مگر بائیڈن کے کان پر جوں نہ رینگی۔ امریکا انسانی حقوق کی مکمل پامالی کے باوجود 1.3 ارب ڈالر مصر کو سالانہ امداد دے رہا ہے۔ 2.5 ارب ڈالر اسلحے کی ڈیل مزید دی گئی۔ ڈیل بھی ہے اور ڈھیل بھی۔ بائیڈن نے گرم جوشی سے سیسی سے کہا کہ میں بے شمار ایشوز پر آپ سے بات چیت کا منتظر ہوں۔ دجال کا گھیرا اسلام کے مراکز عرب دنیا، خلیجی ممالک میں ہوتا دیکھیے۔ موبائل تو ہر ہاتھ میں ہے مگر نجانے مسلمان اس پر کیا دیکھنے میں مگن ہیں۔ مسلم امہ کے مقدر میں گھولی جانے والی یہ سیاہی کیوں نظر نہیں آتی؟
پاکستان سیاسی بگولوں کی زد میں ہے۔ پہلے عمران خان کی سونامی کی تباہ کن دھمکیاں رہیں۔ ملک کو واقعی ہمہ نوع تباہی کے دہانے پر پہنچا کر پیچھے ہٹے تو پاکستان کو سری لنکا بنا ڈالنے کی دھمکی زوردار رہی۔پاکستان سے سچی محبت، اخلاص اور دردمندی کاتقاضہ تھا کہ تقاریر کی شعلہ باری کی بجائے سنجیدگی سے خود احتسابی، ترقی کی منصوبہ بندی، تیاری کرکے متبادل پلان قوم کے سامنے رکھا ہوتا۔ باصلاحیت، پرعزم، مدبر ٹیم سامنے لائے ہوتے تو پچھلی کارکردگی، ناتجربہ کاری پر محمول کرکے قوم بھلا دیتی جو قابل رشک بہرحال نہ تھی۔سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور اتارچڑھاؤ، سازشی (کھوکھلی) تھیوریوںکو امریکا اسرائیل گٹھ جوڑ، مشرق وسطی کے تناظر میں دیکھا جانا ضروری ہے۔ امریکا اسرائیل کے لیے پی ٹی آئی حکومت اور مزاج نہایت سازگار ہے۔
ملکی حالات آج بھی سجدہ طلب ہیں۔ مگر سجدوں کی توفیق، خطا کا اقرار، استغفار کا رجحان۔ سبھی فریق اس سے فارغ لاؤڈ اسپیکروں کے دوش پر سوار حکمرانی پکی کرنے کو گھوڑے دوڑاتے رہے ہیں۔ اخلاق وکردار کا ایسا ہمہ گیر بحران کب ہم نے کہیں دیکھا تھا۔ ایسے میں پاکستان کی 75 سالہ ڈائمنڈ جوبلی کی تیاری؟ ہیروں جیسا اللہ کا تحفہ پانچ دریاؤں، لہلہاتی زراعت کی سرزمین جو رمضان کی مبارک ترین شب ہمیں عطا ہوا، اس کے مقدر میں سیاہیاں بھرنے کو ہم نے کیا نہ کیا! یہاں آئے دن ہوتے شرمناک انکشافات بڑے چمکے دمکتے کرداروں کا حقیقی چہرہ سامنے لاتے ہیں۔ مگر حیا، غیرت تیمور کے گھر سے رخصت ہوئی۔ لاپتا افراد کمیشن کے جاوید اقبال سالہا سال سبھی کچھ کرتے رہے۔ ایک خاتون کے پھٹ پڑنے پر گندگی کا گٹر ابل آیا۔ اعلیٰ ترین حلقے بدترین اعمال کے حامل کی پشت پناہی کرتے رہے۔ ایک دوسرے کی بلیک میلنگ کرتے رہے۔ مظلوم اور مسکین بچوں اور خواتین کی مجبوریوں کا استحصال کرنے والے پرغریب قوم کے ٹیکسوں سے بھاری بھرکم مراعات نچھاور کی جاتی رہیں۔
75 سالوں کے ہمہ نوع اسکینڈلوں اور عوام کے مقدر سے کھیلنے والوں کے لیے دنیا میں سزا ممکن ہی نہیں۔ سب کھاتے آخرت میں کھلیںگے رجسٹر در رجسٹر، آڈیو، وڈیو سبھی ریکارڈ۔ فی الوقت تو ہم پانی پانی ہوئے پڑے ہیں۔ شرمساری سے نہیں، آسمان کی موسلا دھاری سے۔ جابجا (Cloud Burst ) بادل پھٹ پڑنے کا سامنا ہے۔ سونامی ہی کی صورت ہے ہماری شامتِ اعمال کے ہاتھوں۔ مغرب نوازی میں ہم سال بھر انہی کے دن مناتے ہلکان ہوتے ہیں جن پر اللہ غضب ناک ہوا کہ وہ خدا کا بیٹا (نعوذ باللہ) تخلیق کرتے ،ٹھہراتے ہیں نبی کو۔ ’قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے، زمین شق ہو جائے، پہاڑ لرز کر گر پڑیں‘ کی وعید ہے اس پر جس کا ہمیں بھی سامنا ہے۔ لینڈ سلائیڈنگ، غرقابی کا جابجا منظر ہے۔ بدترین فضول حلیوں میں۔ قوم کی وہ بیٹیاں کہ جن کو بننا تھا بتول! پوری تہذیب کفریہ رنگ میں رنگی جا رہی ہے۔ عالمگیر موسمیاتی تباہی صنعتی ترقی کے گہوارے بڑے ممالک کی اندھادھند صنعت کاری سے ہوئی۔ امریکا، چین روس، بھارت، برزایل وہ ممالک ہیں جو زہریلی گیسوں کے اخراج کی بنا پر پورے گلوب کو موسمیاتی تبدیلی کی بلا میں جھونکنے کے ذمہ دار ہیں۔ 1990ء سے آج تک 6 ہزار ارب ڈالر کا نقصان دنیا نے اس بنا پر اٹھایا ہے۔ اس نام نہاد ترقی نے ہر سطح پر دنیا کو گھن چکروں میں ڈال رکھا ہے۔ جنگی تباہیاں کیا کم تھیں جو اب آسمان بھی ٹوٹ پڑا ہے۔ کہیں سورج تپش سے بھونے ڈال رہا ہے کہیں سیلابوں کا سامنا ہے۔ الامان۔ الحفیظ!
وہ فکرِ گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو
اسی کی بے تاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ

مصنف کے بارے میں