شجاعت کی شجاعت

شجاعت کی شجاعت

چوہدری شجاعت حسین نے ایک بار پھر اپنی دیے گئے الفاظ کی لاج رکھ لی اور زبان نبھانے کے لیے اپنے عزیز اور رشتہ داروں کو ایک طرف کر دیا۔ حمزہ نے ایک بار پھر وزیراعلیٰ کا حلف اٹھا لیا ہے اور اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ تو بعد میں پتہ چلے گا مگر عمران خان کو کل اسی کی زبان میں جواب دیا گیا۔ جیسا منہ ویسا تھپڑ۔ عمران خان کچھ قوتوں کے ساتھ مل کر اس ملک کو انارکی کی جس دلدل میں دھکیلنا چاہتے ہیں اس کا موثر سدباب نہ کیا گیا تو ملک مسائل میں دھنستا جائے گا۔ میں نے گزشتہ کالم میں بھی عرض کی تھی کہ اگر آپ کو کھیلنا نہیں آتا تو واپس آ جائیں کہ ٹک ٹک کر کے آپ میچ جیتنا چاہتے ہیں وہ ٹی 20 میں کام نہیں کرتی۔ ٹک ٹک ٹیسٹ میچ میں ہوتی ہے ٹی 20 میں نہیں۔ غیرضروری شرافت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حالات آپ کے قابو سے باہر نکل رہے ہیں۔ کچھ معاملات میں تراش خراش ضروری ہوتی ہے اور شہباز گل نے جس طرح یہ کہا کہ ایسا رندا پھیرو کہ سب صاف ہو جائے تو حکومت میں یہ صلاحیت کیوں مفقود ہے۔ کیا ان کے پاس رندا چلانے والے ہنرمند افراد کی کمی ہے؟ اس کمی پر قابو پائیں ورنہ وہ آپ پر قابو پانے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے ایک پریس کانفرنس کی جس پر یہ تلملا رہے ہیں اور یہ جو دن میں تین سے چار بار ٹی وی پر بیٹھ کر گل افشانی کرتا ہے اسے کیوں ہضم کر لیا جاتا ہے۔ اس نے تو صرف لفظ تتلیاں استعمال کیا تو آگ لگ گئی باقی تو ان کی پریس کانفرنس کے کسی حصے پر اعتراض نہیں کیا گیا۔ فضل الرحمن نے بھی یہ شکوہ کیا ہے کہ شہبازشریف غیر معمولی شرافت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس بارے میں نوازشریف سے بھی بات کی ہے کہ ہمیں سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں لے کر چلنا ہو گا۔ انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کر دیا کہ حکومت عمران خان کو گرفتار کرے گی کہ ان پر بے شمار مقدمات ہیں۔حکومت ابھی تک اس موڈ میں نظر نہیں آ رہی یا شائد حکومت کو اتنا الجھا دیا گیا ہے وہ یکسو ہو کر فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کیا وجہ ہے کہ حکومت ابھی تک قوم کو اشتعال دلانے والی تقریروں کا کوئی سدباب نہیں کر سکی اور محض لاڈلہ کہہ کر بات کو ختم کیا جاتا ہے۔ اگر وہ لاڈلا بچہ ہے تو آپ کیا صرف نالیاں صاف کرنے اور گند اٹھانے کے لیے رہ گئے ہیں۔ آپ کو اقتدار دیا گیا ہے اور آپ پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہے ہیں۔ اتنی زیادہ احتیاط کرنے والے کو کرونا ضرور ہوتا ہے کہ اس میں قوت مدافعت کی کمی ہو جاتی ہے۔ اپنی قوت مدافعت کو بڑھائیں ورنہ یہ بیماری آپ کو لے ڈوبے گی۔
اب آ جاتے ہیں سپریم کورٹ کے معاملات پر۔ سپریم کورٹ نے ایک بار رات کو عدالت کے دروازے کھول دیے لیکن پہلی بار تو یہ دروازے سپریم 
کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد نہ کرنے پر کھلے تھے مگر اس بار تو عدالت کے احکامات پر عملدرآمد کرنے پر دروازے کھول دیے گئے اور پھر ہنگامی بنیادوں پر ایک تین رکنی بنچ نے سماعت کا آغاز کر دیا ہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ سماعت مکمل ہونے پر پتہ چلے گا مگر حکمران اتحاد نے اس ساری کارروائی پر عدم اعتماد ظاہر کر دیا گیا۔ حکومتی اتحاد نے مشترکہ اعلامیہ میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے مطالبہ کیا ہے کہ اس طرح کے تمام مقدمات کو یکجا کر کے سپریم کورٹ کا فل بنچ تشکیل دیا جائے جو ان مقدمات کو ایک ہی طرح سنے۔ کیا یہ افسوس ناک نہیں ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ پر ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں نے عدم اعتماد کر دیا ہے۔ یہ آئینی بحران پیدا بھی سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے فیصلے کی وجہ سے ہوا جس کی وجہ سے حمزہ شہباز شریف کے انتخاب کو کالعدم قرار دے کر منحرف اراکین کے ووٹ کو کاؤنٹ نہ کرنے کا فیصلہ دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے لیے بھی خاصا مشکل ہے کہ ایک ہی طرح کے مقدمات پر وہ دو فیصلے کس طرح جاری کرے گی۔ اصولی طور پر تو اس رٹ پٹیشن کو داخل کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی۔ عدالت اپنے رویے سے یہ ثابت کرے کہ وہ غیر جانبدار ہے ورنہ فضل الرحمن تو پریس کانفرنس میں یہ الزام لگا چکے ہیں کہ ایک جج کا داماد الیکشن لڑتا ہے تو وہ اس کی مدد کرتے ہیں اور اس کے تمام مقدمات کو اپنے پاس سماعت کے لیے مقرر کر لیتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سیاسی جماعتیں کھل کر سامنے آ جائیں اور بنچ میں ان کی موجودگی کو مفادات کے تصادم سے تعبیر کر دیں۔ عدالت نے اپنے اقدامات سے اپنی عزت کمانا ہے اور اس کا واحد راستہ یہی ہے کہ تمام تر فیصلے آئین کی کتاب کے مطابق ہوں اور آئین کی من مانی تشریح کر کے سہولیات فراہم نہ کی جائیں۔ جج سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے جج ہی ہوتا ہے اور بہت محترم ہوتا ہے۔ اس احترام کو ہر حالت میں برقرار رہنا چاہیے۔
فرض کر لیں کہ حمزہ شہباز کے خلاف فیصلہ آ جاتا ہے کہ ڈپٹی سپیکر کے پاس رولنگ دینے کا کوئی اختیار نہیں تھا تو پھر یہ سوال بھی اٹھے گا کہ چیرمین سینیٹ نے جو رولنگ دی تھی اس کا جواز بتا دیں اور اس کے خلاف یوسف رضا گیلانی کی درخواست کی سماعت اس سرعت سے کیوں نہیں ہو رہی جس طرح اس درخواست کو سنا جا رہا ہے۔ دوسری درخواست یہ بھی ہے کہ تمام ادارے مل کر عام مقدمات کی سماعت کے لیے کسی اور عدالت کا بندوبست کریں تاکہ سال ہا سال سے جو مقدمات التوا کا شکار ہیں ان کا فیصلہ ہو سکے۔ عام لوگوں کے مقدمات کے لیے کوئی اور سپریم کورٹ بنا دیں جہاں لوگ رات کے بارہ بجے بھی جا کر اپنی درخواست جمع کروا سکیں اور ان کے فیصلے بھی اتنی تیزی سے ہو سکیں۔ دوہرے معیارات نے اس سوسائٹی کو تباہ کر دیا ہے خدا نہ کرے کہ ہمارے ادارے اس طرح تباہ ہوں۔ میں بات کر رہا تھا کہ اگر حمزہ شہباز کے خلاف فیصلہ آ جاتا ہے تو پھر بھی مسلم لیگ ق کے اراکین اسمبلی کے خلاف پارٹی ہدایات کی خلاف ورزی پر کارروائی ہو گی اور وہ ڈی سیٹ ہوں گے، کیا ایسے حالات میں چوہدری پرویز الہی چل سکیں گے۔
تحریک انصاف کی جانب سے اداروں کے خلاف جو زبان استعمال ہو رہی ہے اور ادارے اس زبان کی وجہ سے بلیک میل ہو رہے ہیں تو یہ زبان دوسری جماعتوں نے بولنا شروع کر دی تو ملک کے حالات خراب ہوتے جائیں گے اور ملک انارکی کا شکار ہو جائے گا۔ دوسرے بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں بہتر ہے کہ ان کے منہ بند ہی رہیں اور معاشرے میں مزید تعفن پیدا نہ ہو۔ پرویز الٰہی نے اپنے آپ کو مشکل میں ڈال لیا ہیوہ صوبائی صدر ہیں اور یہ صدارت ان سے کسی بھی وقت بھیجی جا سکتی ہے۔ لگ یہی رہا ہے کہ ہینڈسم لیڈر سے محبت میں وہ اتنا اسیر ہو چکے ہیں اور اپنی سیاست کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ اس کے بعد یا تو پرویز الٰہی اپنی الگ سے مسلم لیگ بنائیں گے یا شجاعت کے پاس واپس جا کر اپنے رویے کی معذرت کریں گے۔ شجاعت نے ثابت کر دیا کہ وہ نام کے شجاعت نہیں بلکہ کردار کے بھی شجاع ہیں۔

مصنف کے بارے میں