وزیراعظم صا حب مشکل فیصلے کر یں

وزیراعظم صا حب مشکل فیصلے کر یں

کچھ بھی کہہ لیجئے، یہ حقیقت ہے کہ افراطِ زر ملک کو سری لنکا کے راستے پر لے جا رہا ہے۔  چنانچہ صف اول کی سیاسی قیادت کیلئے ضروری نہیں کہ وہ انہی خدشات کو دہراتی چلی جائے قومی قیادت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان مسائل کا حل تجویز کرے۔ مرض کی تشخیص علاج کیلئے ضروری سہی مگر صرف تشخیص بیماری سے جان چھڑانے کیلئے کافی نہیں۔اس بحرانی صورتحال کا علاج احتجاجی سیاست بھی نہیں۔ان حالات میں جب معاشی بحران سنگین صورت اختیار کر چکا ہے عوام کو اکسانے کا ایک ہی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ وطن عزیز جس بحران میں پھنسا ہوا ہے اس کی شدت میں کچھ اور اضافہ ہو اورملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد جو پہلے ہی کافی حد تک مجروح ہے یہ ہنگامہ خیزی اس پر مزید کاری ضرب لگائے اور حکومت کی گرفت اگرکمزور ہو تو عالمی قرض دہندگان بھی سوچ میں پڑ جائیں اور جو کوئی پاکستان کو کچھ قرض دینے کاذہن بنا چکا ہے وہ بھی اس پر نظر ثانی پر مجبور ہو جائے۔ ایسے حالات میں مایوسی بد دلی انتشار اور معاشی بدحالی میں اضافہ نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں؛چنانچہ سیاسی قیادت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ اس صورتحال کی سنگینی بڑھانے کے بجائے جہاں تک ممکن ہو اسے کم کرنے کی کوشش کرے۔ یہ حالات سیاست سے بالاتر ہو کر سوچنے اور کام کرنے کے ہیں۔ سیاست عہدے اور سیاسی منشور سب کچھ خوشحال اور بہتر پاکستان کے نصب العین کے ساتھ منسلک ہونا چاہیے ۔سری لنکا کے حالات کے جتنے حوالے پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران ہمارے سیاسی رہنماؤں نے دئیے اس خطے کے کسی دوسرے ملک میں اس سے آدھے بھی نہ ہوںگے مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہماری قیادت نے اس عبرتناک صورتحال سے سیکھا کیا ہے؟ کیا سری لنکا کا معاشی بحران صرف اس لیے ہے کہ پاکستانی سیاسی قیادت اس کو اپنے ملک کے معاشی حالات کا ذکر کرنے کیلئے بطور حوالہ استعمال کرے؟ کیا سری لنکا صرف تشویش کے اظہار کا ایک استعارہ ہے؟ کیا ان حالات میں ہمارے سیکھنے کیلئے کچھ بھی نہیں؟ اگر ہماری سیاسی قیادت جو اُٹھتے بیٹھتے سری لنکا کے حالات کی مثالیں دے رہی ہے اور اس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں شامل ہیں ان حالات سے کوئی سبق حاصل کرنے کیلئے تیار نظر آتی ہے تو اس بحران کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔حالات و واقعات محض قصے کہانیاں نہیں ہوتے کہ ان کے ذکر سے بات میں وزن پیدا کیا جائے دانشمندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ آپ ایسے واقعات سے سیکھیں اور اپنے آپ کو بہتر بنانے میں ان سے رہنمائی حاصل کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ معیشتیں کبھی راتوں رات یا چند ہفتوں مہینوں کے 
فیصلوں کے بوجھ سے نہیں بیٹھتیں۔ یہ دہائیوں کی غیر حقیقی منصوبہ بندی سوچ اور عمل کا نتیجہ ہوتی ہے یہی سری لنکا کے ساتھ ہوا ہے اور اسی طرح وطن عزیز میں ہوتا چلا آرہا ہے۔ معاشی وسائل کا مضبوط ڈھانچہ بنانے کے بجائے عبوری حربوں سے وقت کو دھکیلنے کی پالیسی ہمارے ہاں خرابی کی جڑ ہے۔ مہنگے قرضوں کو غیر پیداواری مقاصد میں ضائع کرنا ہمارے حکمرانوں کی پرانی عادت ہے۔ اس طرح ملک میں بے مقصد ترقیاتی منصوبوں کا بے ہنگم جال نظر آتا ہے جو عوام کے کسی مفید مقصد میں کام نہیں آ رہے۔ ایسے اکثر منصوبے بدعنوانی کی لمبی سرنگ ثابت ہوئے ہیں۔ یہاں کفایت شعاری کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر رہی۔ ہر چند سال بعد بچت کرنے کا جوش ضرورابھرا مگر یہ جذباتی اقدام کبھی ہمارے سیاسی اور حکومتی مزاج کا پائیدار حصہ نہیں بن سکا۔ ملکی پیداوار کی جانب توجہ دینے اور اخراجات میں احتیاط اور بچت کے رجحان کو فروغ دینے کے بجائے فضول خرچی ہمارا شعار رہی ہے۔ 
ایک ایسا ملک جو بجا طور پر زرعی معیشت کہلاتا ہے خوراک کی درآمدات پر سالانہ سات ارب ڈالر کے قریب خرچ کرتا آ رہا ہے اور ہر سال ان اخراجات میں قریب پچاس فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ غیر معمولی تجارتی خسارے میں خوراک کی سال بہ سال بڑھتی درآمدات کا بڑا اہم کردار ہے۔ٹیکس محصولات کی ضرورت و اہمیت محتاج بیان نہیں مگر ہمارے ہاں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 11فیصد سے بھی کم ہے۔ ہر آنے والی حکومت ٹیکس گزاروں کی تعداد بڑھانے کا عزم ظاہر کرتی ہے مگر اس سلسلے میں پیش رفت ناکافی رہی ہے اور ٹیکسوں کا زیادہ بوجھ بالواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں عوام پر پڑتا ہے۔ سری لنکا کے معاشی بحران کو دیکھیں تو اس کی بنیادی وجوہ میں اس کا غیر ملکی تجارتی خسارہ اور صدر راجا پاکسے کی جانب سے غیر منطقی ٹیکس کٹوتی کا بڑا کردار ہے۔ سری لنکا کی درآمدات کی لاگت اپنی برآمدات سے تین ارب ڈالر زیادہ ہے یہیں سے اس ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کے خاتمے کی ابتدا ہوئی۔ درآمدات اور برآمدات کے عدم توازن کو دیکھیں تو وطن عزیز بھی اسی را ہ پر ہے جس پر چلنے والوں کے قومی خزانے بھر نہیں سکتے۔ مگر کیا صرف یہی بیان کردینا کافی ہے؟ کیا کچھ چیختے معنوں والی سطریں ان مسائل کا حل ثابت ہو سکتی ہیں جو معیشت کو چاٹ رہے ہیں؟ الزام تراشیوں سے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا اہل سیاست کو الزام تراشیوں سے نکل کر حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے۔چنا نچہ ہمارے وزیرِ اعظم کے لئے اب مشکل فیصلے کر نا نا گزیر ہوچکا ہے ۔اور جناب وزیر اعظم میاں شہباز شریف صاحب مشکل فیصلے یہ ہیں :
پاکستان میں کسی کو ایک لیٹر بھی مفت پیٹرول نہیں ملے گا اور نہ ایک یونٹ مفت بجلی یا مفت گیس کوئی استعمال کر سکے گا یہ اعلان کریں تو یہ ہے مشکل فیصلہ ۔  پچھلے 30 سال میں ہر کسی کو ملا ہر سرکاری پلاٹ واپس لیں گے تو یہ ہے مشکل فیصلہ ۔ غلط فیصلے والے حکمرانوں کی جائیدادیں نیلام ہوں گی تو یہ ہے مشکل فیصلہ۔ پاکستان کے تمام سرکاری دفاتر اور سرکاری رہائش گاہوں سے اے سی اتار لیے جائے تاکہ بجلی کی بچت ہو۔ سب سے پہلے پارلیمنٹ ہاؤس، قومی اسمبلی اور سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں اور ان کے ممبران کی سرکاری رہائش گاہوں سمیت تمام وزراء کے سرکاری دفاتر سے اور سرکاری رہائش گاہوں سے اے سی اتارے جائیں، تمام سرکاری گاڑیوں کے پرائیویٹ استعمال پر پابندی لگائے یہ ہیں مشکل فیصلے۔ پچھلے 30 سال سے معاف کرائے گئے تمام افراد سے قرضے واپس لیے جائیں۔ یہ ہیں مشکل فیصلے۔ا لبتہ نالائقی کا سارا بوجھ عوام پر ڈالنا، پیٹرول مہنگا کرنا، بجلی گیس مہنگی کرنا کھانے پینے کی اشیاء مہنگا کرنا، ہر چیز پر ٹیکس بڑھاتے جانا، یہ تو سب سے آسان فیصلے ہیں جو کئے جا رہے ہیں۔

مصنف کے بارے میں