ایمان کی مضبوطی ضروری ہے…!

ایمان کی مضبوطی ضروری ہے…!

بازار میں چلتے ہوئے میری توجہ ایک عجیب و غریب اشتہار نے کھینچ لی، جو ایک دکان کے باہر آویزاں تھا، اور اس پر لکھا ہوا تھا ’’یہاں دِلوں کی مرمت اور علاج کیا جاتا ہے‘‘ میں حیران ہو کر دکان میں داخل ہوا تو ایک بوڑھے شخص نے مسکراتے ہوئے میرا استقبال کیا، اس نے شاید مجھے کئی بار وہ اشتہار پڑھتے اور حیران ہوتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
مسکراتے ہوئے کہنے لگا ’’ہاں میں دلوں کی اصلاح اور علاج کرتا ہوں‘‘ یہاں وہی آتا ہے جس کا دل اس کے قابو میں نہ ہو۔ پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا، ’’تم ادھر ذرا میرے قریب تو آؤ‘‘،اس نے اپنا دائیاں کان عین میرے دل کے مقام پر رکھ دیا اور آنکھیں بند کرلیں جیسے غور سے کچھ سن رہا ہو۔ چند ثانیوں بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور مسکراتے ہوئے کہا’’ تمہارے دل کی دھڑکن میں معمولی سا خلل ہے ‘‘ میرے بیٹے، تم گھبراؤ نہیں تمہارا علاج بہت آسان ہے اور تمہارے لیے دوا بہت معمولی مقدار کی تجویز کی ہے۔ میں یہاں دلوں کا علاج ان کی نوعیت اور حالت کے حساب سے کرتا ہوں۔
مجھے اشتیاق ہوا اور پوچھ بیٹھا کہ کیا دلوں کی بھی اقسام ہوتی ہیں ؟ 
وہ مسکرایا اور کہنے لگا یہ ہمارا وراثتی علم ہے۔  میرے باپ نے جو کچھ میرے دادا سے سیکھا تھا وہ سب مجھے سکھا دیا تھا تو اس تجربے کے مطابق دنیا کے اندر دلوں کی اقسام کچھ اس طرح سے ہیں:
ایک وضاحتیں کرنے والا دل اور ایک دل جو ذبح ہوچکا ہے اور ایک نرمل کومل دل اور ایک عمیق دل اور ایک جلتا ہوا دل اور ایک غرق ہوتا ہوا دل
 ایک ٹوٹا ہوا دل ،ایک دلِ غمزدہ، ایک صحتمند دل ،ایک اداس دل اور ایک بیمار دل ،ایک بے ہوش دل اور ایک مضبوط دل ،ایک زخمی دل ایک مغرور دل ،ایک دل بسمل اور ایک مسرور دل اور ایک لمبی فہرست ہے ،بس تم پاکی بیان کرتے رہو اس مالک کی جو سب دلوں کو پھیرنے پر قادر مطلق پاک پروردگار ہے۔ (مقلب القلوب) میں نے اس سے کہا جناب ایک تالاب آپ کے پاس کچھ پوچھنے آیا اور آپ نے 
اسے ’’ہزار دریاؤں میں بانٹ دیا‘‘ وہ ہنس دیا اور مسلسل مسکراتا رہا ۔ یہ ہنسی ایک دانا اور عارف شخص کی تھی۔ مجھ سے کہنے لگا اے میرے بیٹے ، گھبرانے اور پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں، میرے پاس آنے والے ایسے ہی متحیر آتے ہیں مگر میرے ایک نسخے سے ہی مطمئن واپس چلے جاتے ہیں جس نے بھی تھوڑی سی کوشش کی اور یہ نسخہ استعمال کیا تو اس کا دل اور وجود صحتمند ہوگیا سوائے اس کے جس کے متعلق آسمانوں سے کوئی اور فرمان آچکا ہو۔
 مجھے وہ ذرا کاغذ اور قلم پکڑانا، میں تمہارے لیے نسخہ تجویز کرتا ہوں۔ سنو !میرے بیٹے ، تمہارا رزق تقسیم ہوچکا ہے ، جو کوشش سے تم حاصل کرسکتے ہو لہٰذا ضرورت سے زیادہ حاصل کرنے میں خود کو ہلکان مت کرو۔ تقدیر کا لکھا ناگزیر ہے، جو ہونا ہے وہ ہوکر رہے گا ، لہٰذا گھبرانے سے کچھ حاصل نہیں اور تمہارا رفیق عاجز و بے بس ہے، درحقیقت وہ تمہاری مدد نہیں کرسکتا، اس لیے دوستوں سے توقعات وابستہ کرنا ترک کردو جو دشمنی کرتا ہے وہ کمزور ہوتا ہے۔ لہٰذا دشمنوں کا سامنا بلاخوف خطر کرنا، ان سے ڈرنا مت۔اپنے دل کو تین چیزوں سے پاک کر لو نفرت ،کینہ و بغض اور ریاکاری اور اسے تین چیزوں سے مزین کرلو۔ ایمانداری تقویٰ اور اخلاص اور تین باتیں کبھی نہ بھولنا پروردگار کے حضور ادب سے سر تسلیم خم کرنا، رحمتہ اللعالمینؐ سے محبت کرنا، خوشحالی اور مشکلات ہر حال میں رب العزت کا مستقل شکریہ ادا کرنا۔ سنو! مخلوق کے حال کو اس کے خالق پر چھوڑ دو اور خود کو درست کرنے میں مشغول ہوجاؤ، نہ کہ دوسروں کو۔ تین چیزیں اپنے اندر پیدا کرلوایک یاد رکھنے والی زبان ، برداشت کرنے والا صابر جسم، سمجھنے اور جاننے والا عقلمند دماغ اور تین چیزوں سے دور بھاگتے رہولوگوں میں بیٹھ کردوسرے لوگوں کی باتیں کرنا، اور ایسے بیکار لوگوں میں بیٹھنا جو صرف باتیں کرتے ہوں وہ بھی دوسروں کے عیبوں کی، تو ایسے لوگوں سے بچتے رہنا کیونکہ گھروں میں غربت اور افلاس انہی کے ہاں ڈیرہ ڈالتی ہے جو اپنا وقت دوسروں کے معاملات میں دخل دینے، ٹوہ میں رہنے اور ان کے معمولات کے متعلق باتیں کرتے ہوئے ضائع کرتے ہیں۔ اپنی دوا لے لو ، بروقت کھا لینا ۔ آپ کو شفا بخشے گا۔ اوہ خدایا! میں نے یوں محسوس کیا جیسے میں دوبارہ پیدا ہوا ہوں ۔میں نے اس نسخے کو کھلے دل سے قبول کیا اور گھر چلا گیا، اس کے بعد میں نے ہر وقت اس نسخے کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھا اور ان نصیحتوں پر عمل کرتا رہا اور واقعی مجھے آرام ملنا شروع ہوگیا اور میرے دل کی دھڑکن اعتدال میں آگئی۔ یہ زندگی گزارنے کا ایک ایسا طریقہ تھا، جس پر آپ جب عمل کرتے ہیں تو دل کو حیات نو ملتی ہے۔ روح فخر و انبساط سے بھر جاتی ہے اور آپ دل و جان سے خوش و خرم رہنا شروع ہوجاتے ہیں (عمل کرنے سے ہوسکتا ہے میرے اور آپ کے دل کو شفا مل جائے؟ کریم تمام دلوں کے لیے آسمانوں سے شفا نازل فرما۔( آمین )بقول مرزا سکندر بیگ
نمایاں ہے جہاں میں کام تیرا
رہے گا ہر زباں پر نام تیرا 
جدھر سے قافلہ گزرا وفا کا
نشاں بنتا گیا ہر گام تیرا

مصنف کے بارے میں