سرخیاں ان کی۔۔۔۔۔۔۔؟

سرخیاں ان کی۔۔۔۔۔۔۔؟

٭…… حکومت سینٹ میں بھی فاتح……؟
٭…… اگرچہ بدھ مورخہ 17 نومبر 2021، چار مگھر، 2078 ب کے دن پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں حکومتی 33 بلز، بالخصوص انتخابی اصلاحات ای وی ایم یعنی الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے حق رائے دہی، اوورسیز پاکستانی ووٹنگ اور ہندوستانی جاسوس کلبھوشن سمیت منظور کر لئے ہیں۔ تاہم اس موقع پر میں نے دیکھا کہ ایک طرف ہماری اپوزیشن گنتی کے عمل پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی تھی تو دوسری جانب وزیراعظم جناب عمران خان ایوان میں نہ صرف ”Relax“ تھے بلکہ اپنی شاندار قانون سازی پر زیرلب مسکرا رہے تھے۔ تاہم نتائج کے مطابق انتخابی اصلاحات بل کے حق میں 221 حکومتی و اتحادی ووٹ جبکہ مخالفت میں 203 متحدہ اپوزیشن کے ووٹ شمار ہوئے۔ کاش اس موقع پر بیہودہ زبان، بدنظمی اور دھکم پیل نہ ہوتی تو بہتر ہوتا۔ بہرحال اب فیصلہ مستقبل کا مؤرخ کرے گا؟ کون صحیح، کون غلط تھا۔ جس طرح ہماری حکومت اور ہماری اپوزیشن کی باہمی بول چال بند ہے جبکہ دونوں فریق جمہوریت کے دعویدار ہیں۔ خیر حسب عادت بات کدھر سے کدھر نکل گئی۔ بات تھی سینٹ اور سینٹ میں بھی حکومتی فتح، معزز قارئین یہ سیاسی منظرنامہ بھی ہم نے دیکھا۔ یعنی جمعہ 20 نومبر 2021 کو سینٹ کے اجلاس جس میں بعض غیرمصدقہ ذرائع کے مطابق سینیٹرز کی مطلوبہ تعداد کم ہونے کے باوجود نیب ترمیمی آرڈیننس صحافتی پروٹیکشن بل اور HEC کے دو ترمیمی بل بھی منظور ہو گئے۔ جناب فروغ نسیم جو ایک ماہر اور منجھے ہوئے قانون دان ہیں میری جب بھی کبھی کسی آئینی مسئلہ پر ان سے بات ہوتی ہے تو کمال مہارت سے لاجواب کر دیتے ہیں۔ اس حکومتی فتح میں بھی ان کا اہم کردار ہے جبکہ یہ ایک ایسا سپلیمنٹری ایجنڈا تھا جس کی کامیابی پر کم از کم میں ضرور پریشان تھا۔ صد شکر، جناب سنجرانی کی سربراہی میں سینٹ کا اجلاس حکومتی فتح پے منتج ہوا۔ اگرچہ میرا کالم ریکارڈ پر ہے کہ جناب فضل بھائی جب بہت بڑا لشکر لے کر اسلام آباد پہنچے تھے اور عوام کو اپنی فتح کی خوشخبری سنانا چاہتے تھے اور اس 
کے بعد پی ڈی ایم نے زورشور سے حکومت مخالف اپنی احتجاجی تحریک شروع کی۔ تو میں نے لکھا تھا کہ سب کا سب بے سود ہو گا البتہ اس کے ثمرات سے صرف اور صرف جناب بلاول بھٹو مستفید ہوں گے اس کے بعد نہ صرف پی ڈی ایم کی اصل طاقت منتقل ہو جائے گی بلکہ وہ خود بھی منتشر ہو جائے گی۔ لیکن پی ٹی آئی جیسے تیسے اپنی مدت پوری کرے گی اور اگر گری تو اپنے اعمال کی بدولت گرے گی۔ افلاطون نے کہا تھا وقت ایک ایسی زمین ہے جس میں محنت کے بغیر کچھ پیدا نہیں ہوتا۔ اگر محنت کی جائے تو زمین پھل دیتی ہے اگر بے کار چھوڑ دی جائے تو اس میں صرف خاردار جھاڑیاں اگ آتی ہیں لہٰذا ہماری معزز حکومت کا اولین فرض ہے کہ وہ وقت کا ادراک کرے۔ جتنے چاہے ”بل“ پاس کرے یہ اس کا آئینی استحقاق ہے۔ جتنی چاہے پالیسیاں بنائے مگر خدارا ایسی کامیاب پالیسیاں بنائے یعنی یہ سوچتے ہوئے ایسی پالیسیاں کہ گزشتہ چند برس سے کیوں ملک مقروض در مقروض ہو رہا ہے بلکہ قرضوں پے چل رہا ہے۔ کیوں امپورٹ کا دائرہ وسیع در وسیع ہو رہا ہے۔ کیوں ہماری ایکسپورٹ سکڑ رہی ہیں لہٰذا ہم اپنی حکومتی فتوحات پے جتنی مرضی بغلیں بجائیں، اپنی اپوزیشن کو بھی ان کی بداعمالیوں کی بدولت جتنا چاہے دیوار سے لگائیں، جمہوریت کے نام پر بھی جتنے چاہے عیش و عشرت کے مزے اڑائیں مگر خدارا مصائب تلے دبے جمہور کو بھی ایک آدھی جمہوری ہڈی چوسنے کا موقع فراہم کریں ورنہ یاد رکھیں گزشتہ حکمرانوں کی تاریخ کو یاد رکھیں کہ وقت کا یہ بھی المیہ ہے کہ وہ جب کروٹ بدلتا ہے تو……؟ نہ صرف غرور و تکبر ملیامیٹ ہوتا ہے بلکہ بے کسی کے مزار بھی نئی تاریخ رقم کرتے ہیں؟۔
………………………………
٭…… پی ڈی ایم کا تحریک میں تیزی لانے کا اعلان……؟
٭…… اگرچہ حکومت مخالف اتحاد (پی ڈی ایم) پچھلے کئی ماہ سے سیاسی کشمکش میں کسی ڈرامائی نتیجے کی منتظر ہے غالباً اب جبکہ پی ٹی آئی کے لئے بھی حکمرانی کا پہلا ہی تجربہ تلخ ثابت ہوتا جا رہا ہے ان حالات کو دیکھتے ہوئے ہماری اقتدار پرست اور مفاد پرست اپوزیشن جماعتوں نے بھی نئے سرے سے تحریک میں تیزی لانے پر اتفاق کر لیا ہے۔ مگر وہ یہ ستم ظریفی نہیں سمجھتے کہ ان کی اپنی غلطیوں کی بدولت ان کا ایک ”کٹر“ حریف برسراقتدار آ چکا ہے۔ جس کے مقابلے کے لئے فی الحال ان کا وزن اور قد کاٹھ ناکافی ہے۔ اس لئے مجھے اندیشہ ہے کہ حکومت کی تمام تر بیڈگورننس، دن بھر کی بے کار مسافتوں اور رات بھر کی آفتوں کے باوجود ہماری اپوزیشن کے لئے خوش قسمتی یا خوش بختی کے در فی الحال نہیں کھلیں گے اور جلتے بجھتے کوئلے ہی انہیں ملیں گے۔ لہٰذا دونوں فریق ٹکراؤ کی سیاست سے گریز کریں تو بہتر ہو گا۔ سکون کہیں بھی میسر نہیں ہے انسان کو جنازے والے بھی شانے بدلتے رہتے ہیں۔
………………………………
٭…… خالصتان کیلئے برطانیہ میں ریفرنڈم کا تیسرا مرحلہ……؟
٭…… بلاشبہ اسرار بھری اس دنیا میں نہ جانے کیسے کیسے رمز پوشیدہ ہیں۔ مگر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اولاً تو خالصتان کی بنیاد 28 جون کو وزیراعظم اندراگاندھی کی حکومت نے گولڈن ٹمپل پر چڑھائی کر کے اور ہزاروں سکھوں کو قتل کر کے رکھ دی تھی جس کے ردعمل میں دو سکھ محافظوں نے وزیراعظم اندراگاندھی کو سب کے سامنے قتل کر دیا تھا۔ اس دن کے بعد سے ہمارے سکھ بھائی بھارت کو مردہ باد کہہ رہے ہیں۔ ویسے بھی بنیادی طور پر مسلمان اور سکھ فکر، سماجی رواداری اور رہن سہن بلکہ زبان میں بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں جبکہ سکھ مذہب اور ان کی کتاب مقدس ”گرنتھ“ میں کچھ قرآنی مفاہیم جبکہ بابا فرید کا کلام بھی شامل ہے۔ بہرحال، برطانیہ کے بعد پوری دنیا میں ریفرنڈم ہو گا……؟ اور پھر نہ صرف تاریخی اوراق سے مغل شہنشاہ اورنگ زیب کی غلط فہمیوں کا سیاہ ورق الٹ جائے گا بلکہ ہمارے سکھ بھائیوں سے تمام تر معاشرتی اختلافات بھی قصہ پارینہ بن جائیں گے اور ہم ریڈ کارپٹ ہی نہیں اپنے دل بھی بچھا دیں گے۔ کسی محترم شاعر نے کہا تھا  ؎
صبا نے پھر دَِر زنداں پے آ کے دی دستک
سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے