سیاسی گھُگو گھوڑے، فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ۔۔

سیاسی گھُگو گھوڑے، فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ۔۔

پاکستان کی 75 سالہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو قائداعظم کے دور میں ہی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی مرضی و منشا کے مطابق گھُگو گھوڑے بنانا شروع کر دیے تھے لیکن قائد اعظم کی رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ان میں کچھ تیزی آ گئی۔ اسٹیبلشمنٹ نے لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اس تیزی سے وزرا اعظم چلتے کیے کہ ہندوستان کے جواہر لال نہرو کو کہنا پڑا کہ میں تو سال میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیر اعظم بدل جاتے ہیں۔ آج 75 سال بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی کم و بیش وہی بات کر رہا ہے کہ پاکستان میں بات کس سے کی جائے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے یا سیاسی حکومت سے؟ اس سے بڑا تھپڑ ہمارے جمہوری نظام پر ہو ہی نہیں سکتا لیکن اپوزیشن، حکومت اور اشرافیہ بشمول اصل حکمرانوں یعنی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اس بیان کا جواب دینا بھی گوارہ نہ کیا۔ ٹیسٹ ٹیوب بے بی وزیر خارجہ بلاول بھٹو کو چھوڑیں، وزیر اعظم شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر عمران خان بھی خاموش رہے۔ اس خاموشی کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس اس سوال کا جواب شرمندگی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
ہمارے ملک کی عجب سیاست کی غضب کہانی یہ ہے کہ اس کے قیام کے اولین برسوں میں ہی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے قدم جمانا شروع کر دیے تھے۔ قائد اعظم کی فہم و فراست دیکھیں انہوں نے ایوب خان کے ارادوں کو بھانپ لیا تھا اور اسے فیلڈ پوسٹنگ سے دور رہنے کا کہا۔ قائد کے خیالات ایوب خان کے بارے کس قدر درست ثابت ہوئے اس کی تاریخ گواہ ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح سے لے کر عمران خان تک ہر سیاستدان فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں مطعون ٹھہرا۔ لیکن جن کو اعزازیہ ملا وہ پاکستان کے مسائل کے اصل ذمہ داران تھے جس میں مارشل لا لگانے والے فوج کے چند سربراہان کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ کے چند سابقہ جج صاحبان بھی حصہ دار تھے۔ لیکن اپنے تمام تر غیر آئینی اقدامات کے باوجود ان کے دامن پر کوئی چھینٹ بھی نہ پڑھی اور یہ خلعت کے حق دار ٹھہرے اور تمام کالک سیاستدانوں کے منہ پر مل دی گئی۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بھٹوز کے علاوہ نواز شریف سے لے کر عمران خان تک ہر سیاستدان اس عمل میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار بنا ورنہ وہ اکیلے شاید اتنی بربادی نہ کر پاتے۔ اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ قائد کے پاکستان کو دو لخت کرنے والا یحییٰ خان بھی بغیر احتساب کے سرکاری اعزازات کے ساتھ دفن ہوا یہی اعزازیہ ایوب خان اور ضیاالحق کے حصے میں بھی آیا۔ گو کہ جنرل سکندر مرزا کو وطن کی مٹی بھی نصیب نہ ہوئی اور وہ ایران میں مدفون ہوا لیکن سرکاری اعزازات کے ساتھ۔ جنرل مشرف بھی ہر احتساب سے بالاتر ہو کر بیرون ملک سرکاری خرچے پر نیچر کال (قدرت کے بلاوے) کا انتظار کر رہا ہے لیکن ایک عدالتی فیصلے کی روشنی میں اسے ملک بلانے کی بات تو نواز شریف بھی نہیں کرتے۔ اور کہا جا رہا کہ ایک ڈیل کے تحت جنرل مشرف کے گناہ بھی نواز شریف نے معاف کر دیئے ہیں۔ البتہ مطعون ٹھہرے پاکستان کو بنانے والے سیاستدانوں کے نام کے ساتھ بانی پاکستان، قائد عوام اور شہید جیسے سابقے لاحقے کا پتھر کا لالی پاپ لگا دیا گیا کہ چوستے رہو بھیا جب تک زندگی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر عمران خان کو بھی الیکشن کمیشن کی طرف سے نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ مجھے اس فیصلے سے کوئی حیرانی نہیں ہوئی۔ ایسا نہ ہوتا تو عمران خان بھی اپنے جان نشین کی طرح بوٹ پالشیے کہلاتے۔ اسی طرح کا ایک فیصلہ بے نظیر بھٹو کے خلاف بھی ہوا تھا ہے جب انہیں پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی اور عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل قرار دیا گیا۔ یہ فیصلہ ججز ملک قیوم اور راشد عزیز نے شہباز شریف اور سیف الرحمان کی معاونت پر سنایا۔ بعد میں اعلیٰ عدلیہ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ لیکن نواز شریف کے ساتھ ظلم یہ ہوا کہ اسے سپریم کورٹ نے نااہل کیا اور لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی غلطی کو دور کرنے میں لگی ہوئی ہے۔
اسی طرح نظریہ ضرورت کے موجد جسٹس منیر سمیت جسٹس ارشاد حسن خان، انوار الحق، جسٹس افتخار چودھری، جسٹس قیوم، عبدالحمید ڈوگر اور ثاقب نثار کا نام بھی ان کے فیصلوں کی بدولت متنازع ہی رہا۔ لیکن ان جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی گئی۔ یاد رہے کہ ایک غیر مسلم جج، جناب اے آر کارنیلیس نے مولوی تمیز الدین کیس میں اختلافی فیصلہ لکھنے کی جسارت کی، ان کا اختلافی فیصلہ آج بھی روشن ہے۔
اسی طرح مولوی تمیز الدین سندھ چیف کورٹ پہنچے تو پوری سندھ چیف کورٹ کے درِ انصاف سے داد رسی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ سندھ چیف کورٹ کے فل بنچ نے ان کے حق میں فیصلہ دیا اور ملک غلام محمد کے دستور توڑنے کے فیصلے کو حرفِ غلط قرار دیا۔ عدالت کے چیف جسٹس کونسٹین ٹائن تھے۔ ساتھی ججوں میں جسٹس ویلانی، جسٹس محمد باچل اور جسٹس محمد بخش میمن شامل تھے۔ تمام ججوں کا فیصلہ متفقہ تھا۔ وفاق کی جانب سے، فیصلے کے خلاف، فیڈرل کورٹ میں اپیل کی گئی جہاں جسٹس منیر خدمت کے لیے موجود تھے۔
تاریخ پر نظر دوڑائیں تو لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور اب عمران خان فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں باری باری انجام کو پہنچے۔ لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو چونکہ سندھی تھے اس لیے ان کی مقتل گاہ پنجاب یعنی پنڈی کو چنا گیا۔ شیخ مجیب الرحمان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کی آواز بھی پنڈی سے اٹھی اور اسے غدار ٹھہرایا گیا، نتیجتاً پاکستان ٹوٹ گیا۔ کہا جاتا ہے کہ خالق پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی اسٹیبلشمنٹ کی سازش کا شکار ہوئے اور خراب ایمبولینس کی بنا پر طبی امداد سے قبل ہی چل بسے۔ البتہ اسٹیبلشمنٹ کے بوٹ پالشیوں اور چہیتوں جن میں کچھ امپورٹڈ وزراء اعظم کے علاوہ محمد خان جونیجو، ظفراللہ جمالی، شہباز شریف اور گجرات کے چودھریوں جیسوں کی ہمیشہ چاندی رہی۔ ایک وقت میں نواز شریف بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مہرے رہے لیکن پھر انہیں عقل آ گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے بوٹ پالشیوں کی سیاسی زندگی بہت کم ہوتی ہے اور وہ تاریخ کے اوراق میں جلد ہی گم ہو جاتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ نے جن وزراء اعظم کا شکار کیا ان میں لیاقت علی خان (پنڈی میں شہید کیے گئے)، محمد علی بوگرہ، چودھری محمد علی، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر، ملک فیروز خان نون، ذوالفقار علی بھٹو (پھانسی چڑھے)، محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو (پنڈی میں شہید کی گئیں)، نواز شریف اور عمران خان شامل ہیں۔ لیکن ہمارے سیاستدان آج تک کسی ایک بھی فوجی سربراہ کو آئین توڑنے اور مارشل لا لگانے پر قانون و آئین کے کٹہرے میں نہیں لا سکے اور نظام بدلنے کے بجائے اپنا منہ کالا کر رہے ہیں۔
فوجی اسٹیبلشمنٹ اپنے چہیتوں کو گھُگو گھوڑے بناتی ہے اور ان کو جوت کر وقتی حکومت دے کر اپنی منشا کے مطابق چلاتی ہے۔ لیکن جب ان گھُگوؤں کی آنکھوں سے پٹی اترتی ہو اور وہ کاٹھی اتار پھینکتے ہیں، اپنی سمت درست کرنے لگتے ہیں تو وہیں ان کی لگامیں کھینچ کر طوق پہنا دیے جاتے ہیں۔ لیکن قصور ان گھُگو گھوڑوں کا بھی ہے کہ یہ وقتی اقتدار کے لیے بار بار ایک ہی سوراخ میں ہاتھ ڈال کر ڈسے جاتے ہیں۔ اس کا حالیہ شکار عمران خان تھا لیکن جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ آخری شکار تھا وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ یہ ملک اسی طرح چلے گا اور گھُگو گھوڑے استعمال ہوتے رہیں گے لیکن یہ ملک و قوم کے مفاد میں کبھی اکٹھے نہ ہوں گے۔ کاش وہ دن آئے کہ ہم نہیں تو ہماری نسلیں دیکھیں جب یہ سیاسی گھُگو گھوڑے ایک بہتر پاکستان کے لیے سیاسی مخالفت سے ہٹ کر ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھیں اور میں خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں۔
قارئین اپنی آرا 03004741474 پر وٹس ایپ کریں۔

مصنف کے بارے میں